Ghalat Fehmi Se Bachna Chahiye

 


غلط فہمی

آج میری بیٹی زینب کالج سے گھر آئی تو کافی پریشان نظرآ رہی تھی۔ اس نے اپنی پریشانی کا اظہار تو نہیں کیا مگر والدین تو اپنی اولاد کی پریشانی اس کے چہرے کے تاثرات سے بھانپ لیتے ہیں مگر میں نے اس وقت پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ رات کو کھانے کے بعد میں اس کے کمرے میں گئی تو دیکھا کہ وہ ہاتھوں میں کتاب تھامے اس قدر گہری سوچ میں گم تھی کہ ُاسے میرے کمرے میں آنے کا پتہ بھی نہیں چلا۔اچانک وہ خیالات کی دنیا سے باہر آئی تو مجھے سامنے پا کر حیرت سے مسکرا دی، مجھے ُاسی لمحے کا انتظار تھا۔میں اُس کے پاس بیٹھ گئی اورُ اس کی پریشانی کی وجہ دریافت کی۔پہلے تو اُس نے اُسے میری غلط فہمی قراردیا مگر میرے اصرار پر اس نے بتایا کہ آج اُس کا اُس کی ایک سہیلی جو کہ اسکول کے وقت سے اس کے ساتھ ہے سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ میں نے اُس سے اِس کی وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ اس سہیلی نے کسی دوسری سہیلی سے اس کی برائی کی تھی۔یہ بتاتے وقت اس کے لہجے میں کافی سختی آگئی تھی اس نے کہا کہ میں نے ہمیشہ اس کی لوگوں کے سامنے اچھائی کی، ہر موقع پر اس کی مدد کی، مگر آج اس نے نئی کلاس فیلو کے سامنے میری برائی کیوں کی؟اب میں کبھی اس سے بات نہیں کرو نگی۔ میں اس کے لہجے  میں ایک غیر یقینی کی سی کیفیت بھی محسوس کر رہی تھی۔ میں نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ کیا تم نے خود وہ باتیں سُنی تھیں، یا تم نے خود اپنی اس سہیلی سے پوچھا کہ وہ باتیں اس نے کیں بھی تھیں یا نہیں۔میرے دونوں سوالوں کا جواب اس نے نفی میں دیا۔

میں نے محبت اور شفقت بھرے انداز میں اس کے بالوں پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ بیٹا صرف غلط فہمی کی بنیاد پراپنی ذات سے منسلک کسی بھی رشتے کو نہیں توڑا جاسکتا۔تم کل کالج جاؤ اور خود جاکر اس سے پوچھو کہ آیا اس نے ایسا کہا بھی تھا یا نہیں یا کسی اور نے تم دونوں کی دوستی کے درمیان غلط فہمی کی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے۔

اگلے دن جب زینب کالج سے گھر آئی تو میں اس وقت کچن میں تھی اس نے آتے ہی میرے گلے میں اپنے ہاتھوں کا ہار پہناتے ہوئے میری طرف دیکھا تو اُس کے چہرے کی طمانیت اور آنکھوں میں موجود خوشی کی رمق نے مجھے یہ سمجھنے میں ذرا دیر نہیں ہونے دی کہ جو رشتہ محض غلط فہمی کی بنیاد پر ٹوٹا تھا وہ دوبارہ ایک پائیدار بندھن میں بندھ چکا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post