حُسن ظن اور حسین زن
میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے بڑوں کو یہی تاکید کرتے سُنا
کہ ہمیں دوسروں کے لیے ہمیشہ حُسن زن رکھنا چاہیے۔نا مناسب حالات میں بھی زندگی
میں کامیابی کے لیے ہماری جانب سے ہمیشہ مثبت سوچ اور رویّوں کا اظہار ضروری ہے۔بس
یہی بات ہم نے اچھی طرح ذہن نشین کرلی اور زندگی کے ابتدائی منازل طے کرتے ہوئے
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا اوراور بر سر روزگار ہوئے تو گھر والوں نے ہمارے لیے
ایک حسین زن کی تلاش شروع کردی۔ویسے ہم نے اپنا تعارف تو کرایا ہی نہیں۔نا جانے
ایسی کون سی خوبی ہمارے اندر موجودتھی کہ لوگ دور سے ہی ہمیں دیکھ کر اپنا راستہ
بدل لیتے تھے۔اور اگر ہم کسی سے ان کے گھر آنے کا کہتے تو یہ درخواست کی جاتی کہ
برائے کرم آنے سے پہلے ہمیں مطلع ضرور کیجیے گا۔اگر کسی سے فون پر خیریت معلوم
کرلیتے توجواب ملتا کہ اب تک تو خیریت ہے اب آپ سے گفتگو کے بعد کے کیا حالات ہوں
یہ نہیں جانتے۔اگر ہم کسی محفل میں شریک ہوتے تو لوگ ہماری قابلیت کے اس قدرقائل
ہوجاتے کہ وہ محفل ہی برخاست ہوجاتی حالانکہ ہم تو ہر موضوع پر گفتگو کرنے میں
اپنی مثال آپ تھے۔اورآداب گفتگو کو اس قدر ملحوظ خاطر رکھتے کہ اپنے آگے کسی کو
بولنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔اکثر و بیشتر لوگوں کے چہروں کے تاثرات سے ہم بخوبی
اندازہ لگا لیتے کہ اب دیگر احباب کے ساتھ مزید علمی گفتگو کرنا اپنے علم کا زیاں
کرنے کے مترادف ہے۔مگر جیسے ہی ہم کسی اور ٹیبل کی جانب بڑھتے وہاں سے خالی نشستوں
کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جاتا کہ سوری یہاں کوئی بیٹھا ہے۔انہی منفی رویوں کی
وجہ سے اکثر ہم گوشہ نشین ہوجاتے کیونکہ ہم شروع سے ہی حساس طبیعت کے مالک تھے۔
حالانکہ ہم نے تو ہمیشہ اپنے معاملات میں انتہائی شگفتگی، شائستگی،اور گوہر افشانی
کا مظاہرہ کیا مگر نہ جانے کیوں ہمارے عزیز و اقارب کا کہنا تھا کہ ہمارا کردار
کسی کے صبر کو آزمانے کا بہترین پیمانہ ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی ہمارے لیے حسین زن کی تلاش کی مگر تلاش
تھی کہ طویل ہی ہوتی جا رہی تھی۔آخر گھر والوں نے طویل جد وجہد کے بعد ایک دن
ہمارے سامنے ایک روح کو تڑپا دینے والی بات کہہ دی کہ اب مزید ہم سے تلاش کا کام
نہ ہوسکے گا یہ کام اب خاندان سے باہر کے کسی ایسے شخص کو دینا پڑے گا جو ہمیں نہ
جانتا ہو اور رشتہ بھی خاندان سے باہر کا ہی ہو کیونکہ خاندان میں توہماری شہرت کا
ڈنکا بجتا تھا۔
یہ بات ہمارے لیے ناقابل برداشت تھی مگر مرتے کیا نہ کرتے
بالاخر اپنے لیے رشتے کی تلاش کا بیڑا ہم نے خود اٹھالیا۔کیونکہ اب ہم عمر کے اس
حصے میں پہنچ چکے تھے جب لوگ اپنے بچوں کے رشتوں کے سلسلے میں مشاورت کے لیے بلاتے
ہیں۔اپنے ایک ہم عمر دوست کے پاس پہنچے جو میرج بیورو چلاتے تھے۔تعارف کے بعد پتہ
چلا کہ وہ تین بار رشتہ ازدواج سے منسلک ہو چکے ہیں تو اپنے اوپر افسوس ہواکہ وہ
اپنی زندگی کی تین بہاریں دیکھ چکے ہیں اور ہم ایک بھی نہیں۔بس پھر کیا تھا انہوں
نے ہمارے سامنے رشتوں کے انبار لگا دیئے مگر بات بننے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی شاید
ہماری شہرت خاندان سے باہر بھی اپنا اثر دکھا چکی تھی۔ہم کسی کے معیار پر پورا تر
ہی نہیں رہے تھے۔بالا خر ایک دن اُس دوست کی کال آئی کہ آج شام میں کسی کے گھر
جانا ہے۔ ہم بڑے بن ٹھن کر ان کے ساتھ موصوفہ کے گھر پہنچ گئے۔وہ روائتی انداز میں
جب کمرے میں داخل ہوئیں تو ہماری اوپر کی سانس اوپر ہی رہ گئی کیونکہ تصویر تو
ہمیں کسی حسینہ کی دکھائی گئی تھی مگر یہاں تو ہمارے سامنے جون ایلیا دوپٹہ اوڑھے
کھڑی تھی۔اس سے پہلے ہم کچھ فیصلہ کرپا تے کمرے میں ماشاء اللہ ماشاء اللہ کی
صدائیں گونجنے لگیں بس پھر کیا تھا چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق ہماری زندگی میں وہ
کارٹون اوہ سوری خاتون ہماری اہلیہ کی حیثیت سے وارد ہوگئیں۔خیر شادی کے بعد ہم اس
انتظار میں تھے کہ ہمیں اپنے نہ سہی اپنی اہلیہ کے رشتہ داروں کی جانب سے دعوت
نامہ موصول ہوگا مگر بقول اپنی اہلیہ کے ان کے رشتہ دار ان کو صرف انتقال، سوئم،
چہلم اور برسی جیسی مجالس میں ہی مدعو کرتے تھے۔شاید اسی وجہ سے ان کی ذات خود بھی
رنج و الم کی تصویر بن گئی تھی۔بس ہم دونوں نے اسی کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول
کرلیا اور یہ تہیہ کرلیا اب ہماری خوشی و غمی کا محور و مرکز ہم خو د ہی ہوں گے۔
کیو نکہ کو ئی اس قابل کہاں کہ وہ ہمارے جیسے گوہر نایاب کی قابلیت سمجھ پاتا۔
ہماری زندگی کی گاڑی یو نہی رواں دواں تھی۔ایک دن میرے
موبائل پر نامعلوم نمبر سے کال آئی۔ریسیو کرنے پر پتہ چلا وہ میرا اسکول کے زمانے
کا دوست عبد اللہ ہے جو حال ہی میں بیرون ملک سے واپس آیا تھا۔اوربہت ہی کم وقت
میں ایک ماہر نفسیات کی حیثیت سے شہر کے مشہور و معروف اسپتالوں میں جانا جاتا
تھا۔اس کے علاوہ شہر کے پوش علاقے میں اس کا اپنا کلینک بھی تھا۔جب اُسے پتہ چلا
کہ میں بھی آخر رشتہ ازدواج سے منسلک ہو ہی گیا ہوں تو اس نے مجھے اور میری اہلیہ
کو اپنے گھر دعوت پر مدعو کر لیا۔ہم دونوں وقت مقررہ پر اس کے گھر پہنچ گئے۔اس نے
اور اس کے گھر والوں نے ہمارا استقبال اس طرح سے کیا کہ گویا ہم دونوں ان کے گھر
کے افراد ہی ہوں۔آپ یقین کریں کہ اتنی عزت تو کبھی کسی نے ہمیں اپنے گھر میں بھی
نہیں دی حالانکہ گنتی کے حساب سے ہم اگر ۵ افراد سے چھوٹے تھے تو ۷افراد سے بڑے
بھی تو تھے مگر ہماری برتری کو ئی تسلیم کرنے کو ہی تیار نہیں تھا۔شاید انہی رویوں
کا اثر تھا کہ جو چیز ہمیں کبھی نہیں ملی وہ ہم دوسروں کو کیسے دیتے یعنی عزت۔
دوران گفتگو پہلی دفعہ ہمیں احسا س ہوا کہ ہماری طویل گفتگو
کسی نے بڑے تحمل سے سُنی یہاں تک کہ ہمارے پاس الفاظ اور عنوان دونوں کا ذخیرہ ختم
ہوگیا۔وقت رخصت اس نے ہمیں تحائف بھی دیئے اور جوالفاظ ادا کیے چندلمحوں تک تو ان
پر سماعتوں کو یقین ہی نہیں آیا کہ دوبارہ کب آرہے ہو؟ہم نے جذبات کی رو میں بہہ
کر کہہ دیا آپ جب بلائیں گے ہم حاضر ہوجائیں گے۔چند دنوں بعد میرے اس دوست کی کال
آئی۔علیک سلیک کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم دونوں کسی دن میرے کلینک آسکتے
ہو؟میں نے حیرانگی سے پوچھا مگر کیوں۔اس نے نہایت نرمی سے جواب دیا کہ آپ دونوں کو
کچھ مشورے دینے ہیں۔ میں نے کہا ہمیں تو کوئی جسمانی عارضہ لاحق نہیں۔اس نے دوبارہ
جواب دیا کہ یہ ضروری تو نہیں کہ بیماری صرف جسمانی ہو۔تم دونوں آؤ تو سہی۔میں نے
اس کے کلینک کے اوقات معلوم کر کے آنے کی حامی بھر لی۔دو دن بعد میں اور میری
اہلیہ اس کے کلینک پہنچ گئے۔تمام مریضوں کے معائنہ کے ہم بعد اُس کے پاس بیٹھ
گئے۔اُس نے مجھ سے کہاکہ میں تم سے کچھ سوالات کرونگا اورتم مجھے اچھی طرح سوچ
سمجھ کر اُن کے جوابات دینا۔میں نے کہا ٹھیک ہے پوچھو۔
یہ
بتاؤ کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ تم نے کسی اور کی بات صبر اور تحمل سے سنی ہو یا دو
لوگوں کے درمیان دوران گفتگو مداخلت نہ کی ہو؟ اپنے علاوہ کسی اور کی رائے کو بھی
اہمیت دی ہو یا اس سے اتفاق کیا ہو؟یا موقع اور محل کی مناسبت سے گفتگو کے عنوان
کا انتخاب کیا ہو؟یا کسی محفل میں اپنی موجودگی پر لوگوں کے مثبت یا منفی تاثرات
کو محسوس کیا ہو۔یا زندگی میں کبھی کسی معاملے میں کسی سے مشورے کی ضرورت محسوس کی
ہو۔یا کوئی ایک ایسا دوست کہ جس کے آگے تمہیں اپنی پریشانی کے اظہار کے لیے الفاظ
کا سہارا نہ لینا پڑا ہو؟ وہ یہ تمام سوالات کرتا جا رہا تھا اور میرے پاس ان تمام
سوالات کے جوابات میں صرف مجرمانہ خاموشی کے سواء کچھ نہیں تھا۔سب سے آخر میں جو
سوال اس نے کیا اس نے گویا میرے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاکہ تم لوگوں سے اپنے
ساتھ جن رویوں کی توقعات رکھتے ہو کیا کبھی لوگوں کے ساتھ معاملات میں بھی اُن
رویوں کا مظاہرہ کیا؟
اس کے اس سوال نے میرے ماضی کے دریچوں سے ایسے ان گنت
واقعات میرے سامنے لا کر رکھ د یئے جو میرے منفی رویوں کا منہ بولتا ثبوت اور میرے
اورمیری ذات سے منسلک دیگر رشتوں کے درمیان فاصلوں کا سبب بھی تھے۔حالانکہ بچپن سے
لیکر آج تک میں نے کبھی معاشی مشکلات کاسامنا نہیں کیا کیونکہ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ذہنی
آسودگی میں معاشی حالات کا کردار بھی بہت اہم ہے۔میں نے ہمیشہ اپنے کردار پر نظر
ثانی کر کے اپنی اصلاح کر نے کی بجائے دوسروں کو ہی ذمّہ دار ٹہرایا۔میری گہری سوچ
اور طویل خاموشی سے اسے یہ سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی کہ اتنے بڑے خاندان کا چشم
و چراغ ہونے کے باوجود تنہائی کا شکار ہونے کا میں خود ذمہ دار ہوں۔
اس طویل گفتگو کے بعد اس نے مجھے ایک مختصر اور جامع نصیحت
کی جس پر عمل کرنے کی بدولت آج میں اپنے خاندان اوردوست احبا ب میں اچھی شخصیت کے
حامل انسان کی نظر سے پہچانا جاتا ہوں۔وہ یہ کہ عزت دینا سیکھو عزت خود ملنا شروع
ہوجائے گی۔
ReplyDeleteNice story 👌
Post a Comment