Aik Yaadgaar Safar

Aik Yaadgaar Safar

ایک یادگار سفر

نادر عزیز(اسسٹنٹ لائبریرین سینئرسیکشن۔جینیر یشنزاسکول ساؤتھ کیمپس)

ہم مستعاریعنی اُدھارپر لی گئی کارمیں بڑی شان سے ایک تقریب میں شرکت کے لیے اپنی فیملی کے ہمرا ہ عرُوس البلاد کی سڑکوں کے نشیب و فراز کو عبور کرتے کچھ اس برق رفتار ی سے رواں دواں تھے کہ گویا بادشاہ سلامت اپنی سلطنت کے دورے پر نکلے ہوں کہ اچانک ایک بائیک پر سوار ایک شہسوار کچھ اس انداز سے ہمارے سامنے آگیا کہ گویا وہ اپنے گھر پر آخری نصیحت اور وصیت کر کے نکلا ہو جو اس مقولے پر پورا اترتا ہے کہ"اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں گے"۔ بس مرتے کیا نہ کرتے بریک لگانے پڑے۔وہ ایک دم رُکااور ہمیں مڑ کر دیکھا تو ہمیں ایسا لگا کہ اس نے ہماری شان میں سنگین گستاخی کر دی ہو۔ بس پھر کیا تھا ہم نا زیبا الفاظ کو بیہودہ لہجے کی آمیزش کے ساتھ اس کی سماعتوں کی نظر کرنے لگے۔ہمارے ہذیان نے اس کی برداشت کی حدوں کو روند ڈالا اور بقول نیوٹن ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے کے مصداق وہ شہسوار ہماری جانب  بڑھا کہ وہ ہمیں ایسا سبق سیکھائے گا کہ ذہنی ضعف(Mental Weakness)کے باوجودہم اسے بھول نہیں پائیں گے۔ مگر وہ تو لوگوں کا احسان کہ انہوں نے بیچ میں آکر مجھے اس شخص کے عتاب سے بچا لیااور ہم نے بھی وہاں سے روانہ ہونے میں ہی عافیت جانی۔ورنہ اس کے مہیب جسمانی خدو خال اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اگر ہم اس کے ہاتھ آجاتے تو وہ ہمارا وہی حال کرتا جو آج کل مہنگائی نے عوام کا کردیا ہے۔

ابھی ہم چند فرلانگ آگے ہی بڑھے تھے اور اس حادثے کے ذہنی اثرات سے خود کو نکال نہیں پائے تھے کہ ہم نے دائیں جانب مڑنا چاہا مگر مڑنے کا اشارہ دینا بھول گئے اور مڑگئے کہ اچانک ایک دیوقامت گاڑی ہماری گاڑی سے اس قدر زور سے ٹکرائی کہ ہمارے اوسان خطا ہوگئے۔جہاں غلطی ہماری تھی  وہاں اس کے ڈرائیور کو بھی کم از کم ہم سے تھوڑا فاصلہ تو رکھنا چاہیے تھا۔خیر جب اوسان بحال ہوئے تو سوچا کہ باہر نکل کر گاڑی کا جائزہ لیں مگر یہ کیا کہ اس کے ڈرائیور نے چشم زدن میں ہمیں گاڑی سے نکال کر دونوں گاڑیوں کا معائنہ بھی کرادیا۔معائنے کے بعد پتہ چلا اس کی گاڑی کو معمولی چوٹیں آئیں ہیں مگر ہماری گاڑی ایک ٹانگ سے اپاہج ہوچکی ہے اور مزید ہمارا اور ہمارے کر توتوں کا بوجھ اُٹھا نے سے قاصر ہے۔اس گاڑی کے ڈرائیور اور اس کے اسلحہ بردار معاونین کی گرفت میں ہم مستقبل قریب میں اپنے انجام کا انتظار اور ماضی قریب کے ایک واقعے کو یاد کرنے  لگے کہ حسب عادت ایک صاحب سے الجھنے کا نتیجہ اس صورت میں سامنے آیا تھا کہ ہم ایک ہفتہ تک اپنی صورت کسی صورت کسی کو دکھا نے کے قابل نہیں رہے۔ مگرپھر ہر دفعہ کی طرح اس دفعہ بھی لوگوں نے بیچ بچاؤ کرادیا۔مگر اس دفعہ جسمانی نقصان کے ساتھ ساتھ مالی نقصان بھی جھیلنا پڑگیا۔

Aik Yaadgaar Safar

اب ہماری حالت یہ تھی کہ نہ ہمارا شمار زندوں میں تھا نہ مُردوں۔ اس خیال ہی سے جان نکلی جا رہی تھی کہ اب اس گاڑی کے مالک جو کہ ہمار دوست ہی تھا کو کیا جواب دیں گے۔ہماری ایک جان جو گاڑی میں موجود تھیں اس حادثے کے بعد انہیں دیکھنے سے یہ گما ن ہورہا تھا کہ گویا اب ہمیں کبھی سنو جان سننا نصیب ہی نہیں ہوگا۔ ویسے میں آپ کو یہ بتانا بھول ہی گیا یہ جان گاڑی والی ہی تھی جس نے ہمیشہ کی طرح جان گاڑی تیز چلاؤ نہ بول بول کر ہماری جان جان ِآفریں کے سپرد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خیرہمارے اس دوست نے ہماری کہانی سننے کے بعد اس نے اس غلطی کی سزا کے طور پر ہم سے اچھی خاصی رقم وصول کرلی حالانکہ ہم نے اُسے یہ پیشکش کی تھی ہم اُس کی گاڑی مرمت کرواکر دوبارہ اصلی حالت میں لوٹا دیں گے۔وہ تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ اس کی گاڑی کی مکمل مرمت کی ذمہ داری اس کمپنی کی ہے جس میں وہ ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز ہے۔

خیر اس مالی نقصان کے بعدبرق رفتاری کے جس قدر جراثیم جو ہماری رگ و جان میں سرایت کر چکے تھے اور جذبات کو برانگیختہ کرتے تھے وہ سب کے سب یک دم ختم ہوگئے اورہم کردار میں ظاہری سلجھاؤ کے ساتھ ساتھ ڈرائیونگ میں بھی میانہ روی کے قائل ہوگئے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post