Anjaan Khooni Rishtay

 

Anjaan Khooni Rishtay

انجان خونی رشتے

نادر عزیز(اسسٹنٹ لائبریرین سینئرسیکشن۔جینیر یشنزاسکول ساؤتھ کیمپس)

ہمارے محلے میں کرائے کے مکان میں ایک عمر رسیدہ بیوہ خاتون ایک بچے جو کہ اُن کے بقول اُن کا پو تا تھاکے ساتھ رہتی تھیں۔تھوڑے ہی عرصہ میں انہوں نے بچوں کوگھر پر پڑھانا شروع کر دیا اور چند ماہ میں ہی پو رے علاقے میں ان کی قابلیت کے تذکرے ہو نے لگے۔لوگوں نے اپنے بچوں اور خاص طور پر بچیوں کو ان کے پاس پڑھنے کے لیے بھیجنا شروع کر دیا۔ ہم نے کبھی اس گھر میں اہل محلہ کے علاوہ کسی کو آتے جاتے ہو ئے نہ دیکھا اور نہ کبھی ان سے کسی نے ان کے اہل خانہ یا دیگر رشتہ داروں کے حوالے سے کچھ پو چھنا مناسب سمجھا۔ان کے تعارف کے لیے بس اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ تعلیم یافتہ اور سلجھی ہو ئی ہو نے کے ساتھ ساتھ ان کے پاس ہر مسئلہ کا قابل قبول حل موجود ہو تا تھااسی وجہ سے وہ پورے محلے میں مس سلوشن کے نام سے جانی جاتی تھیں۔محلے میں شاید ہی کوئی ایسا گھر موجود ہو جو ان کی اس صلاحیت سے استفادہ حاصل نہ کر چکا ہو۔مگر ایک چیز جو ہم اہل محلہ یک دوسرے سے اکثر کہتے اور سنتے رہتے تھے کہ اُنہوں نے کچھ ایسے مسائل کے حل بتائے جو صرف وہی انسان بتا سکتا ہے جو خودایک مشترکہ خاندانی نظام کا معتبر حصہ رہا ہواور ان مسائل کا سامنا کر چکا ہو۔مگر یہ تو اکیلی اپنے پو تے کے ساتھ رہائش پذیر تھیں جس کا مطلب یہ تھا کہ ان کا کو ئی بیٹا اور بہو بھی تھے۔مگر کبھی انہوں نے ان کا تذکرہ نہیں کیا۔ یہ چیز ہما رے لیے بڑی حیرت کا باعث بھی تھی۔مگر کبھی ہم نے اس بات پر کو ئی توجہ نہیں دی۔

رمضان کے آخری ایام چل رہے تھے ایک دن میری بیگم نے دوران افطار مجھ سے کہا کہ آپ تراویح  پڑھ کر آجائیں تو ہم مس سلوشن کے گھر چلیں گے میں نے اُن کے اور اُن کے پوتے کے لیے کچھ کپڑے اور تحائف لیے ہیں وہ اُن کو دے آئیں گے۔میں نے حامی بھر لی۔تراویح کے بعد ہم دونوں ان کے گھر پہنچ گئے وہ ہم دونوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور ڈصیروں دعاؤں سے ہمارا دامن بھر دیا۔تھوڑی دیربعد وہ ہمارے لیے چائے لے کر آگئیں۔میں نے دل میں سوچا کیوں نہ آج اِن سے اِن کے ماضی کے بارے میں پو چھ لوں۔میرے پوچھنے پر انہوں نے پہلے بات ٹالنے کی کوشش کی مگر میرے اصرار پر وہ یوں گویا ہوئیں۔یہ کہانی میں ان ہی کی زبانی بیان کر رہا ہوں۔

تعلیم مکمل کر نے کے فوراً بعد ہی میری شادی ہو گئی۔میرے شوہر ایک سرکاری ادارے میں اچھے عہدے پر فائز تھے۔اللہ نے یکے بعد دیگرے مجھے چار بیٹوں سے نوازا۔ہم نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کسی قسم کی کو ئی کمی نہیں آنے دی۔وقت اپنی پو ری رفتا رسے گزرتا رہا ہم بڑھاپے کی سیڑھیاں چڑھتے گئے جب کے ہمارے بچے جوانی کے ساتھ ساتھ ایک کے بعد ایک کامیابیوں کی منازل طے کر تے چلے گئے۔پھر انہوں نے خود ہی اپنی پسند سے شادیاں بھی کر لیں بھلا ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔کیوں کہ اولاد کی خاطر قربانیاں دینے والے ہی تو والدین کہلاتے ہیں۔پھر چند سالوں میں ہی میں پو تے پوتیوں کی جھرمٹ میں بیٹھی ہو ئی اپنے پروردگار کاشکر ادا کر رہی تھی۔ اب  میری مصروفیات کا محور و مر کز صرف میرے پو تے پوتیاں تھے۔ خیر زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ گزر رہی تھی کہ اچانک ایک دن کھانے کے دوران میرے بیٹوں اور بہوؤں نے اس بات پر اصرا رکرنا شرو ع کر دیا کہ اب ہم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ہم الگ ہو نا چاہتے ہیں۔

مجھے اور میرے شوہر کو اس بات پر بڑی حیرانی ہوئی کیونکہ انہیں اس گھر میں رہنے میں کس بات کی پریشانی تھی جب کہ ان کی خدمت کے لیے خدام کی پو ری ایک فوج موجود تھی۔اور گھر بھی ہماری رہائشی ضروریات سے کافی بڑا تھا۔ ہم دونوں نے ان سے اس کی وجہ دریافت کر نے کی کوشش کی مگرانہوں نے کو ئی معقول جواب نہیں دیا۔ ہم دونوں میاں بیوی اپنے کمرے میں آگئے۔ نیند ہماری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ہم دونوں نم آنکھوں سے ایک دوسرے کو تسلیاں دے رہے تھے کہ بچے ہیں شاید اپنا فیصلہ تبدیل کرلیں۔مگرچند دنوں میں ان کا یہ اصرار اب اس نہج پر پہنچ چکا تھا کہ اب انہوں نے کھانا اپنے اپنے کمروں میں کھانا شروع کردیا جو ہم دونوں کے لئے ناقابل برداشت تھا۔خیران کے ان مسلسل منفی رویوو ں کو مدنظر رکھتے میرے خاوند نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم یہ گھر بیچ کر تمام معاملات بچوں کے حوالے کر دینگے اور

Anjaan Khooni Rishtay

ہم بحیثیت والدین کسی نہ کسی بیٹے کے ساتھ رہ لینگے۔

ابھی گھر کی فروخت کے معاملات مکمل ہوئے تھے کہ کہ اچانک ایک دن میرے شوہر حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔میں نے اس وقت بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا کیوں کہ جن اولاد نے مجھے سنبھالنا تھا وہ اپنے باپ کی تجہیز و تکفین کی ذمہ داریاں ایک خیراتی ادارے کو سونپ کر خود اپنے نئے گھر کی خریداری میں مصروف تھے اور جنازے میں اس طرح شریک ہوئے کہ شاید کسی اجنبی کے جنازے میں بھی کوئی اس طرح شریک نہ ہوتا ہو۔ اس دنیا میں کچھ رشتے ایسے ہو تے ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہو تے ہیں اور ان میں سے ایک میاں بیوی کا رشتہ ہے۔مگر زندگی میں حالات کبھی اس موڑ پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سمجھوتے کے سواء کو ئی دوسرا راستہ بھی بھی نہیں ہو تاسو میں نے بھی ان حالات سے سمجھوتا کر لیا۔یہ تو میں سوچ رہی تھی مگر ابھی شاید مجھے مزید آزما ئشوں سے گزرنا تھا۔

اپنے والد کے ایک سال بعد ہی میں جس بیٹے کے ساتھ رہ رہی تھی وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔میں نے قسمت کا لکھا سمجھ کر اسے بھی قبول کرلیا۔مگر اس کے بعد بھی مجھے ابھی ایک اور آزمائش سے گزرنا تھا۔میری بہو نے عدت کے چند ماہ بعد ہی مجھے یہ فیصلہ سنا دیاکہ آپ اور آپ کا پوتا(یعنی اس کا اکلوتا بیٹا) اپنا بندوبست کہیں اور کرلیں میں دوسری شادی کر رہی ہوں اور آپ دونوں کو اپنے ساتھ مزید نہیں رکھ سکتی۔یہ سن کر تو میرے اوسان خطا ہو گئے اور مجھے کافی دیر تک اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ چلو میں اس کی تو ماں نہیں شاید اسی وجہ سے یہ ایسا کہہ رہی ہو مگر یہ خود کیسی ماں ہے جو اپنی اولاد کو بھی اپنے ساتھ رکھنے کو تیا ر نہیں مگر میں تو اپنے پوتے جو کہ میرے بیٹے کی نشانی ہے کو کیسے چھوڑ سکتی تھی۔میں نے اسے اپنے ساتھ لیا اور یہاں اب آپ لوگوں کے سامنے ہوں۔کیوں کہ تین بیٹوں نے تو پہلے ہی مجھے اپنے ساتھ رکھنے سے صاف منع کر دیا تھا۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئیں۔ میری اور میری بیوی کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے مگر جب ہم دونوں کی نظر اُن پر پڑی تو اُن کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جگہ اپنے پوتے کے مستقبل کی تعمیر کرنے کے مضبوط ارادوں کی جھلک واضح طور پر دیکھی جاسکتی تھی۔اور پھرایک دن اُن کے پوتے کی اعلیٰ سرکاری عہدہ پر تعیناتی نے ان کی اس بات کو سچ کر دکھایا۔

Anjaan Khooni Rishtay

ان کی یہ داستان ِزندگی سن کر ہم واپس آگئے۔اس بات کو کئی برس بیت گئے۔ایک دن صبح اچانک یہ خبر سننے کو ملی کہ مس سلوشن کا انتقال ہو گیا۔اِنَّ لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رٰاجِعُونْ۔تمام اہل محلہ ان کے ذاتی گھرجو ان کے پوتے نے خرید کر اُن کے نام کر دیا تھاکے باہر جمع تھے۔اچانک چند گاڑیاں گلی میں داخل ہوئیں اور ان کے گھر کے باہر رک گئیں۔اُس دن ہم محلے والوں کو پتا چلا کہ مس سلوشن کے چار بیٹے تھے جب اُن تینوں کا تعارف مس سلوشن کے پوتے نے ہم سے کروایا۔مگر حیرانی کی بات تو یہ تھی کہ ان تینو ں کی بیویاں اور بچے اُن کے ساتھ نہیں تھے۔ جو شایداس بات کی گواہی تھی کہ اُن کے ساتھ مکافات عمل شروع ہو چکا تھا۔وہ تینوں تجہیز و تکفین کے تمام تر مراحل میں پیش پیش رہے۔

تدفین کے بعد بھی وہ تینوں اپنی ماں کی قبر پرموجودتھے اور پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے اور میں دور کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ کیا ان کے یہ آنسواُن کبیرہ گناہوں کا کفارہ بن سکیں گے جو انہوں نے اپنی ماں کے ساتھ روا رکھنے والے منفی رویوں کی صورت میں کمائے تھے اور ان آنسوؤں کی بدولت جنت کے اس دروازے کو کھلوانے کے متمنی تھے جو انہوں نے اپنی ماں کی زندگی میں اس کی خدمت کر کے نہیں کھلوایا۔ہم شاید اس خوش فہمی میں جی رہے ہیں کہ ہماری آخری سانس تک توبہ کا دروازہ اسی لیے کھلا رکھا گیا کہ ہم جو جی میں آئے کر تے رہیں مگر یہ بھی یاد رہے کہ بروزِ محشر حقوق اللہ تو شاید معاف کر دیئے جائیں لیکن حقوق العباد میں کی جانے والی ذیادتیوں اور کو تاہیوں کا ازالہ کہیں ہمیں اپنی نیکیوں کا دوسرے کے نامہئ اعمال میں اضافے اور اُن کے گناہوں کا ہمارے نامہئ اعمال میں اندراج اور اس کے نتیجے میں سزا کی صورت میں نہ کرنا پڑجائے۔

1 Comments

Post a Comment

Previous Post Next Post