Lock Down 20-21

Lock Down 20-21

لاک ڈاؤن

آج جب میں آفس سے گھر جانے کے لیے نکلا تو آفس مینجمنٹ کی جانب سے تنخواہ کی کٹوتی کے فیصلے کی وجہ سے سخت غصہ اور شدید ذہنی اذیت کا شکا رتھا اور نوکری سے استعفیٰ دینے کا پختہ ارادہ کر چکا تھاکیوں کہ اپنی عمر کا ایک طویل حصہ اس ادارے میں نوکری کرتے گزاردیا تھااور محض چند قواعد و ضوابط کی پابندی نہ کر نے جو کرونا وائرس کی وباء سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کی صورت میں ہمارے ادارے میں نافذالعمل تھے کی بنیاد پر تنخواہ کے خاصے حصہ کی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس دوران دل اور دماغ کے درمیان ایک جنگ جاری تھی کہ اگر اتنی محنت اور توجہ میں نے اپنے کاروبار جس کی باگ دوڑ میں نے اپنے بھائیوں کے ہاتھ میں دی ہو ئی تھی کو دی ہوتی تو شاید نوکری کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کیوں کہ میری نظر میں کاروبار بادشاہت جب کہ نوکری غلامی کا نام تھا۔بات دراصل یہ تھی کہ میں کسی بھی معاملے کو اس کی اصل حقیقت پر پرکھنے کی بجائے اپنی سوچ کے پیمانے پر تولتا تھااور میں یہ بات بھول جاتا تھا کہ کسی بھی واقعہ کی حقیقت کو اس کے آخری درجے تک جان لینا اور سمجھ لینا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔

 

انہی خیالات میں نہ جانے کب گھر آگیا۔گھر میں داخل ہوا اور سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا اور منہ ہاتھ دھونے کے بعد بستر پر دراز ہو گیا۔میرے دل میں خیالات تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ایک طرف کرونا سے متاثر ہو تی کاروباری حالت اور میرے کاندھوں پر موجود ذمہ داریوں سے نبر دآزما ہو نے کا احساس جب کہ دوسری جانب ہمیشہ کی طرح جذبات کی رو میں بہہ کر استعفیٰ کی صورت میں مستقبل میں مالی نقصان اُٹھانے کا اندیشہ۔میں کسی حتمی فیصلے تک پہنچ نہیں پا رہا تھا۔ اچانک مجھے بچوں کا خیال آیا۔اپنے کمرے سے نکل کر بچوں کے کمرے میں آکر دیکھا تو وہ وہاں موجود نہیں تھے۔میں واپس اپنے کمرے میں آکر بستر پر لیٹ گیا۔اچانک میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور میرے تینوں بچے میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔تھوڑی دیر تک وہ شرارتوں میں مشغول رہے مگر شاید میری توجہ نہ پاکر وہ خاموشی سے کمرے سے  باہر چلے گئے۔

 

تھوڑی دیر بعد میری بیٹی زینب نے آکر بتایا کہ بابا آپ کے دوست ناد رانکل آئے ہیں۔میں نے دل میں سوچا اس وقت یہ کیسے آگئے؟خیر میں نے اپنی بیٹی کو کہا کہ ُانہیں ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ میں آتا ہوں۔میں جیسے ہی ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو اس کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر میری ذہنی اضطراری کیفیت طمانیت اور سکون میں بدل گئی۔سلام دعا کے بعد اس کے آنے کی وجہ میں کیا پوچھتا آگے سے اُسی نے اپنے مخصوص لہجے میں جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھاسوال داغ دیا کہ خیریت ہے تم کچھ پریشان لگ رہے ہو؟اس کا صرف اتنا کہنا میرے ضبط کے سارے بندھنوں کو توڑ دینے کے لیے کافی تھا۔میں نے یک طویل سرد آہ بھری اور اپنی آفس کی روداد اور استعفیٰ دینے کے فیصلے کی بات اس کے گوش گزار کر دی۔اس نے نہایت تحمل سے میری ساری کہانی سنی۔

 

اس کے بعد وہ مجھ سے یوں گویا ہو ا کہ دیکھو ہماری زندگی میں بعض اوقات ایسے حالات آجاتے ہیں کہ جن سے سمجھوتے کے سواء کو ئی چارہ نہیں ر ہتااور جذبات کی بجائے وقت اور اپنے حالات کو سامنے رکھتے ہو ئے اپنی انا، مزاج، مرضی اور خواہشات کے منافی فیصلے کر نے پڑتے ہیں۔یہاں تک کہ اپنے اصولوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔اس نے مجھ سے سوال کیا کیا تمہارے پاس اس نوکری سے حاصل ہونے والی آمدنی کا متبادل موجود ہے؟یا جو کاروبار تم نے اپنے بھائیوں کے حوالے کر رکھا ہے اس میں حصہ دار بننے سے ان کے لیے مالی مشکلات کا باعث تو نہیں بن جاؤگے؟کیوں کہ کرونا کی وباء سے اس وقت کاورباری طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔

Lock Down 20-21

نوکری میں ہر ماہ ایک معقول رقم تمہیں حاصل ہو تی ہے۔جب کہ کاروبار کی حالت اس وقت بڑی دگر گوں ہے۔اور تم اکیلے نہیں ہو تمہارے کاندھوں پر تمہارے اہل و عیال کی ذمہ داریاں بھی موجود ہیں اور ان ذمہ داریوں سے کسی صورت راہ فرار اختیار نہیں کر سکتے۔ میرا مشورہ ہے کہ تم نوکری مت چھوڑوکیوں کہ تمہارے آفس میں اُٹھائے جانے والے جن اقدامات کو بنیاد بنا کر استعفیٰ دینے کی سوچ رہے ہووہ تو تمہارے آفس کے تمام افراد کی صحت کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہو ئے اُٹھا ئے گئے ہیں۔میں اس کی بات بڑے غور سے سُن بھی رہا تھا اور اپنے دل و دماغ کو اس بات پر آمادہ کر چکا تھا میرا استعفیٰ دینے کا فیصلہ محض جذبات پر مبنی ہے اور کچھ نہیں۔میرا دوست کچھ دیر بیٹھا اور پھر اجازت لے کر رخصت ہو گیا۔

 

اس کے بعد میں اپنے کمرے میں واپس آیا تودیکھا کہ میری والدہ میرے بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔انہوں نے بھی وہی سوال کیا جو کچھ دیر قبل میرے دوست نے کیا تھا کہ خیریت آج تم کچھ پریشان سے لگ رہے ہو۔میں اُن کے اس سوال پر یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ والدین ہی ہو تے ہیں جو اپنی اولاد کی پریشانی اُن کے چہرے کے تاثرات سے ہی بھانپ لیتے ہیں جب کہ اولاد لاکھ محبت کے دعوؤں کے باوجودان کی تکالیف کا ادراک کبھی بھی نہیں کر پاتی۔اُن کے سوال پر اُنہیں بھی اپنی رودادسنادی اور انتظار کر نے لگا کہ میری والدہ اس سلسلے میں مجھے کیا مشورہ دیتی ہیں۔کیوں کہ میں اپنی والدہ کی رائے کو ہمیشہ مقدم رکھتا تھا۔اور آج گھر آتے  ہوےء بھی یہی سوچ رہا تھا کہ سب سے پہلے اُن سے مشور ہ کروں گا مگر جب میں گھر آیا تو وہ میرے بڑے بھائی کے ساتھ کہیں گئی ہو ئیں تھیں۔

 

خیر تھوڑی دیر بعد وہ مجھ سے گویا ہو ئیں اور میری اُمیدوں بلکہ یقین کے عین مطابق انہوں نے بھی وہی مشورہ دیا جو میرے دوست نے دیا تھا۔ان کے اس مشورہ کے بعد میں یہ پختہ ارادہ کر چکا تھاکہ مستقبل میں ایسا کو ئی فیصلہ نہیں کروں گا جو کسی بھی طرح مشکلات کا باعث بنے۔تھوڑی دیر وہ تو اُٹھ کر چلی گئیں مگر میرے ارادوں کو عزم مصمم دے گئیں کہ کبھی دل و دماغ کے فیصلوں کو اس وقت تک قبول نہ کروں جب تک اُن پرمنفی جذبات کی دھول جمی ہو۔

اگلے رو زمیں آفس کے لئے نکلا تو گذشتہ دن ہونے والا واقعہ محض ایک تلخ تجربے کی یاد کی صورت میں میرے ذہن کے کسی گمنام گوشے کا حصہ بن چکا تھا جس نے یقیناً جس نے جلد ہی ذہن سے محو ہو جا تھا۔

  

1 Comments

Post a Comment

Previous Post Next Post