Umeedein Aur Sahaare

 اُمیدیں

Umeedein Aur Sahaare

نادر عزیز(اسسٹنٹ لائبریرین سینئرسیکشن۔جینیر یشنزاسکول ساؤتھ کیمپس)

اگر ہم اپنے گردو پیش کاجائزہ لیں تو ہمیں لوگ یہ شکوہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کہ دیکھو میں نے فلاں کے ساتھ ساری زندگی اچھائی کی اور اس کا بدلہ اس نے مجھے برائی کی شکل میں دیا،  یا میں نے ساری زندگی فلاں کو اپنا سمجھ کر اس کی ہر طرح کی مالی اور اخلاقی مدد کی اورآج جب مجھے اس کی ضرورت پڑی تو اس نے بیگانوں کی طرح رویہ اپنا لیا۔اور پھر ہوتا یہ ہے کہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے نام پر جوشکوے شکایتیں دوسروں کے آگے بیان کرتے ہیں ان کے نتیجے میں ان نیک اعمال کو سرانجام دے کر جو نیکیاں ہم نے کمائی ہوتی ہیں وہ سب ضائع ہوجاتی ہیں۔

اس کا ایک جذباتی پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس وقت ہم کسی سے اُمیدیں وابستہ کرلیتے ہیں توہو سکتا ہے کہ وہ شخص خود اس وقت کسی آزمائش میں مبتلا ہو اور چاہتے ہوئے بھی ہماری مدد نہ کر سکے اور ہم حقائق کا ادراک ہو تے ہو ئے بھی صرف ظاہری حالات کی بنیاد پر اس شخص سے متنفر ہوجاتے ہیں کہ وہ شخص ہماری مدد کرنا ہی نہیں چاہتا۔

اگر ہم نفسیاتی پہلو سے اس بات کا جائزہ لیں تو شاید ہم اس بات کو ماننے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اکثر و بیشترکسی کی مدد کرنے کے جذبے کے پیچھے کوئی نہ کوئی ذاتی مفاد بھی کارفرما ہوتا ہے۔ کیونکہ انسانی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ مفاد سے بالا تر ہو کر مشکل سے ہی کسی کام کو سرانجام دینے پر آمادہ ہو تا ہے۔

تیسرااور سب سے جامع پہلو جو ہمیں بحثیت مسلمان اسلام کی تعلیمات سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ کسی کی مدد کرنے کی استطاعت رکھتے

Umeedein Aur Sahaare

ہیں تو اس طرح سے کریں کہ اول کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو، دوم یہ نہ ہو کہ وہ مستقل طور پر آپ ہی پر بھروسہ کرنے لگے، سوم یہ کہ آپ اپنی کسی پریشانی کے وقت اس شخص سے بدلے کی امیدنہ رکھیں۔بحیثیت مسلمان ہمارے مذہب اسلام نے بھی ہمیں میانہ روی کا درس دیا ہے۔لیکن اس حقیقت سے اعراض بھی ممکن نہیں کہ ہمارے اعمال یا افعال کا بدلہ ہمیں نہ ملے چاہے وہ دنیاوی منعفت ہو یا اُخروی راحت کی کوئی شکل۔بسا اوقات یہ بھی دیکھا گیا کہ اگرکسی ایک شخص نے بھلائی کے عوض ہمارے ساتھ منفی رویہ اپنا لیایا ہمیں کسی نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑ ے تو ہم آئندہ کے لیے کسی کے ساتھ بھلائی کرنے کے ارادے ترک کر دیتے ہیں۔ یہ دانش مندانہ فہم و فراست والے رکھنے والے کسی انسان کے لیے موزوں نہیں کہ وہ کسی ایک انسان کے ذاتی فعل کی وجہ سے اچھے اعمال و افعال کو انجام دینا ترک کر دے۔

اس کا آسان حل یہ ہے کہ اپنی زندگی میں کسی کے ساتھ معاملات میں اس حد تک نہ جائیں جو اس کے رویوں میں تبدیلی اور اس سے علیحدگی کی صورت میں ٓپ کے لیے دوسروں کے سامنے شرمندگی یا خِفّت کاباعث بنے۔

 

1 Comments

Post a Comment

Previous Post Next Post