سیاست
نادر عزیز(اسسٹنٹ لائبریرین سینئرسیکشن۔جینیر یشنزاسکول
ساؤتھ کیمپس)
اُمید ہے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ سب ایمان
اور صحت کی بہترین حالت میں ہو ں گے۔رمضان جیسا مبارک مہینہ ہم پر اپنی پوری
رحمتوں اور بر کتوں کے ساتھ سایہ فگن ہوا اور انتہائی تیزی کے ساتھ اختتام پذیر ہو
گیا۔کئی لوگ جو گذشتہ رمضان ہمارے ساتھ تھے وہ منوں مٹی تلے جا سوئے۔اُن میں سے ایک
میرے سب سے بڑے بھائی خالد عزیز بھی شامل ہیں۔اور نہ جانے ہم میں سے کتنے ایسے ہوں
گے جو شاید اگلے رمضان سے پہلے ہی اپنی زندگی کے ایام پو رے کر کے سفر آخرت پر
روانہ ہو جائیں۔
گذشتہ چندماہ سے ہمارے ملک کی سیاست کی غیر
مستحکم صورتحال پر نظر ڈالیں تو ایک عجیب سی بے چینی، اضطراب اور افرا تفری کی سی
کیفیت نظر آرہی ہے اورنئی حکومت آنے کے باوجود بھی کو ئی حتمی صورتحال واضح ہو تی
نظر نہیں آتی۔ہر سیاسی جماعت اپنی مخالف جماعت پر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا الزام
لگاتی نظر آرہی ہے۔ہر ایک کا یہ دعویٰ ہے کہ عوام سے مخلص صرف اُن ہی کی جماعت
ہے۔لیکن اگر ہم ان کا غیر جانبدارانہ موازنہ کریں تو ہم پر یہ بات روز ِروشن کی
طرح عیاں ہو جائے گی کہ یہ تمام جماعتیں گذشتہ کئی دہائیوں سے عوام کو ایک پُرفریب
نظام کی چکی میں پیس رہے ہیں جس کا نام جمہو ریت ہے۔
ویسے جہاں تک میری ناقص رائے ہے جمہوریت تو شاید
اسلام کی تعلیمات کے منافی نہیں؟یا شاید ہمارے حکمران طبقے نے "اسلامی جمہوریت
" کی اصطلاح تلاش کر لی ہو کیوں کہ یہ طبقہ تو ہمیشہ حکومت گرانے یا
حکومت میں آنے کے لئے چاہے آئین ہو یا
قانون میں اپنی مرضی و منشاء کے مطابق تبدیلی کر نا اپنا حق سمجھتا ہے۔ جمہو ریت
وہ طرز حکمرانی ہے کہ جس میں عوام کی حالت تو بد سے بد ترین ہو تی جا تی ہے جب کہ
ان حکمرانوں کے اثاثوں کی مالیت کے صحیح اعداد و شمار ان کے اپنے علم میں بھی نہیں
ہو تے اور شایدان کے مجموعی ذاتی خزانوں کی مالیت ہمارے ملکی خزانوں کی مالیت سے
بھی تجاوز کر چکی ہو تی ہے۔ کیونکہ جن کی بصیرت صرف اور صرف دُنیا کے مال و متاع ہی
کی اسیر بن چکی ہو اور آخرت کا تصور محض چند مخصوص دنوں میں تقریر یا تحریر کی حد
تک ہو تو ان کے اعمال بھی محض صرف دنیاوی زندگی کے گرد ہی گھومتے رہتے ہیں۔اوریہ
بات لکھتے ہو ئے مجھے کو ئی عار نہیں کہ ان کی معاونت کر نے میں کچھ "علمائے
کرائم"کا بھی اہم کردار رہا ہے جو ہمیشہ ان کی راہ ہموار کر تے نظر آتے ہیں
چاہے وہ بذریعہ تحریر ہو، تقریر ہو یا کو ئی نام نہاد تحریک۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی جماعت کی
قوت اُس جماعت سے وابستہ غریب طبقہ ہو تا جو محض جذباتی وابستگی کی بنیاد پر اس
جماعت کے حکمران کے لیے اپنی جان دینے اور مخالف کی جان تک لے لینے کو اپنا فرض
سمجھتا ہے اور اس کے لیے ہمیں ماضی قریب کے حالات و واقعات کا جائزہ لے لینا ہی
کافی ہو گا کہ جب عروس البلاد اور شہر قائد کہلانے والے اس شہرکراچی کے کئی علاقے
محض لسانیت کی بنیاد پر منقسم تھے اورایک دوسرے کے علاقے میں جانا گویا اپنی جان
سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے مترادف تھا۔اپنے علاقے میں موجود اپنے مخالف زُبان یا قومیت
سے تعلق رکھنے والی دُکانوں اور مارکیٹوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا تو گویا ا
نتہائی آسان تھا۔روزانہ بیسویں افرادکا وحشیانہ
قتل معمول بن چکا تھااور اُن میں سے اکثر کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے
نہیں تھا۔وہ محض اس لیے قتل کر دیئے گئے تا کہ مخالف جماعت پر اپنی درندگی کی دھاک
بٹھا ئی جا سکے اور اس بہنے والی خون کی ندی میں ان لوگوں نے بھی ہاتھ دھوئے جو ایک
طویل عرصہ سے ان حالات کا انتظار کر رہے تھے تا کہ اپنے مخالفین سے انتقام لے سکیں۔کیوں
کہ اس دورا ن قاتلین کے لیے نامعلوم افراد کی اصطلاح استعمال کر کے اپنی جان چھڑا
لی جاتی تھی گو کہ یہ اصطلاح آج تک استعمال کی جا رہی ہے۔جب کہ اسی دوران ذرائع
ابلاغ سے ہمیں اپنے اُن ہی جماعت کے حکمرانوں کی ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کی
خبریں ملتی رہیں مگر یہ خبر نہ مل سکی کہ فلاں لیڈر نے اپنے کارکنوں کے ساتھ مخالف
پارٹی کے فلاں لیڈر کے گھر پر دھاوا بول دیا اور اُسے دن دھاڑے قتل کر دیا۔مگر اُن
کی بھڑکائی ہو ئی مفاد پرستی اور تعصب کی آگ میں زیادہ تر وہ طبقہ جلا کہ جس نے
عقل کی بجائے محض کی بنیاد پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا حالانکہ اُن میں سے کئی
افراد کو اپنے مخالفین کوقتل کر نے کے لیے
استعمال کیا گیا اور پھر وقت آنے پر اُن کی زُبان کھلنے کے خطرے کے پیش نظر
انہیں بھی خودہی ٹھکانے لگادیا گیا اور الزام مخالف لسانی جماعت پر لگادیا گیا تا
کہ عام لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹی جاسکیں۔آج تک کئی گھرائے ایسے ہیں کہ جن کے جوان
کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے مفاد ات کی نظر ہو کر اپنے گھر والوں کو روتا چھوڑ کر
اس دنیا سے چلے گئے اور اُنہیں استعمال کر نے والی اُنہی کی سیاسی پارٹی نے اُن کے
گھر والوں کے حالات معلوم کر نے کی زحمت تک گواراہ نہیں۔ مگر اُن کی عقل پر کیا
ماتم کیا جائے کہ ایک بھائی کو سیاست کی بھینٹ چڑھتے دیکھنے کے باوجوددوسرا بھائی اس کا بدلہ لینے
اور اس کے پیچھے پیچھے خود بھی موت کی وادی میں جانے اور سیاسی شہادت کے رُتبے پر
فائز ہو نے کے لیے بے چین ہو تا ہے۔
ویسے جس طبقے میں سیاست کے جراثیم زیادہ شدت کے
ساتھ پائے جاتے ہیں وہ یہی طبقہ ہے۔ مگر اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جب اسی
طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک عام شخص جیسے جیسے اپنے اثرو رسوخ کی بنیاد پر مالی
طور پر مستحکم ہو تا جاتا ہے تو اس کی اپنی جماعت سے وابستگی کی شدت میں بھی کمی
آتی جاتی ہے جو اس بات کی عکاسی کر تی ہے کہ اس کی موجودہ قیمت سے زیادہ ادا کر کے
اس کی سیاسی وفاداری تبدیل کروائی جا سکتی ہے۔
کسی بھی سیا سی جماعت کا اُمراء طبقہ جو درحقیقت
ماضی قریب میں غربت کا شکار رہا ہو تا ہے بڑا دور اندیش ہو تا ہے جو محض بیان بازیوں
تک ہی اکتفا کر تا ہے اور ایک دوسرے کی جان و مال کو اپنے لیے حرام سمجھتاہے اپنے
مخالفین کی تقریبات میں خوشی خوشی شرکت کرتا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ حالات پر بھی
کڑی نظر رکھتا ہے اور اپنی جماعت پر زوال آنے سے پہلے ہی دوسری جماعت کو اپنی
وفاداریوں کا یقین دلانا شروع کر دیتا ہے اور وقت آنے پر اپنی پارٹی کو داغ مفارقت
دینے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔
ویسے مخالف جماعت کے حکمران طبقے کی برائی کرنا
تو ہماری عادت بن چکی ہے اورہم میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کہیں سے کو ئی
معلومات مل جائے چاہے وہ حقائق پر مبنی ہوں یا نہیں وہ دوسروں تک پہنچانا اپنا
اوّلین فرض سمجھتے ہیں مگر جب باری آتی ہے اپنے عیوب پر صرف نظر ڈالنے کی تو اُنہیں
دور کرنا تودور کی بات ہے ان کو اس طرح نظر انداز کر دیتے ہیں کہ گویا ان کا ہماری
ذات میں موجود ہو ناکو ئی عیب کی بات نہیں کیو ں کہ ہماری بصارت اور بصیرت دونوں ہی
آخرت میں جوابدہی کے تصور سے ہی ناآشنا ہیں تو پھر احساس کیسا؟ حالانکہ ایک دن ہمیں
اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے ہرہر عمل چاہے وہ چھوٹے ہوں بڑے ہوں اعلانیہ ہوں یا خفیہ
کا حساب دینا ہے اور جواب نہ دینے پر سخت عذاب کی وعیدیں اللہ کی آخری کتاب یعنی
قرآن مجید میں بتائی جا چکی ہیں۔
ویسے ہمیں اپنے اعمال سے زیادہ نہ جانے کیوں
دوسروں کے اعمال کی فکر کھائے جاتی ہے اور اس وقت ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ
ہم سے صرف ہمارا حساب لیا جائے گا نہ دوسروں کا۔کیا ہی اچھا ہو کہ جس طرح ہر گھر
اور ہر ادارے میں موجود افراد اپنی اپنی ذمہ داریوں سے خوب واقف ہو تے ہیں اور صرف
اُسی پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں بالکل اسی طرح زندگی کے تمام اوقات میں بھی اگر اس
کا اطلاق کرلیں تو صرف دوسروں ہی کی نہیں ہماری زندگی میں بھی سُکون اور اطمینان جیسے
اہم عناصر شامل ہو جائیں گے۔
ویسے اکثر میرے ذہن میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ
جن حکمرانوں کی خاطر ہم ایک دوسرے کی جان کے در پے ہو تے ہیں کیا قیامت والے دن
اُن کے سا تھ جی اُٹھنے کو تیار ہیں؟ ہم میں سے ہر ایک انسان کا جواب نفی میں ہو
گا۔ہم میں سے ہر ایک اپنے آخری نبی کریم رؤف الرّحیم محمد رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا
متمنی نظر آئے گا۔آخر کیوں؟کیا آج ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ کل اُن کی شفاعت سے
بہرہ مند ہو سکیں؟ہر گز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اپنے اعمال کا خود جائزہ لیں
تو ہم اپنی ہی نظروں میں گر جائیں گے اوراُن میں سے کئی ایسے اعمال ہوں گے کہ جن کے
کرنے کا کوئی جواز ہم پیش ہی نہیں کر سکتے۔
ویسے کبھی ہم نے اپنے روز و شب کا موازنہ کیا
ہے کہ کیا ہمیں اس دنیا میں اس لئے بھیجا گیا کہ ہم سارا وقت Social Mediaپر بیٹھ
کر اپنے مخالفین کی تذلیل، تضحیک، تنقیص اور تحقیر کر تے رہیں۔اور ایسا کرنے سے کیا
کوئی دنیاوی یا اُخروی فائدہ حاصل ہو تا ہے یا مزید اعمال کی سیاہی کا سبب بنتا
ہے۔روزمرہ زندگی میں کسی سے اختلاف ہو نا فطری امر ہے چاہے وہ مذہبی اختلاف ہو یا
سیا سی اور اس کا اظہار چاہے زبانی ہو یا عملی اس کی کچھ اخلاقی حدود ہو تی ہیں
اور ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم آزاد پیدا نہیں ہو ئے بلکہ ہم دین اسلام پر پیدا
ہو ئے ہیں۔اور اسلام کا مطلب سراسر سلامتی ہے۔
خدارا ہ اپنے آپ کو، اپنی ذمہ داریوں کو اور اس
دنیا میں بھیجے جانے کے مقصد کو پہچانئے اور اپنی صحت، علم اور زندگی کو غنیمت جان
کر اپنے اعمال کا خود محاسبہ کیجئے اور اپنی تمام توانائیاں کسی سیا سی جماعت کے
آلہ ئ کار بن کر دنیا و آخرت کی رُسوائی کی صورت میں جھیلنے کی بجائے اسلام کے
غلبے اور اس کی سربلندی کے لیے صرف کیجئے۔کیوں کہ کل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں
حاضری ہو نے پر اگر یہ سوال کرلیا گیا کہ میرے دین کی سربلندی کے لیے کیا جدو جہد
کی تو اس کے جواب میں سوائے شرمندگی کے کچھ پاس نہ ہو۔اس کام کے لیے کسی بھی جماعت
کے ساتھ مستقل وابستگی اختیار کرنے سے پہلے اس جماعت میں کچھ وقت گزارنے اور اس کو
قرآن و سنت کے پیمانے پر جانچنے اور پھر مطمئن ہو جانے پر اس سے وابستہ ہو کر دین
کے غلبہ میں مصروف عمل ہوجائیں اور اس کے نتائج سے بے فکر ہو جائیں کیوں کہ اس کے
نتائج دُنیا میں دکھ، تکلیف اور پریشانیوں کی صورت میں سامنے آئیں گی جو کہ آپ کی
موت کے ساتھ ختم ہوجائے گی لیکن آخرت میں اپنے رب کے حضور اس جدو جہد کے نتائج دیکھ
کر یہ حسرت دل میں اُمڈ آئیگی کہ کاش میں کچھ مزید جدو جہد کرلیتاجو میرے درجات کی
بلندی کا سبب بن جاتا۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے
دنیا میں آنے کی تو عمر معین ہے مگر جانے کے لیے عمر کی کو ئی حد مقرر نہیں۔لہٰذاہمیں
اپنے اعمال کی فکر کرنے چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے ایسے اعمال صالح کر نے کی توفیق
مانگنی چاہئے کہ جن کی بنیاد پر اس دنیا سے جاتے وقت اللہ ہم سے راضی ہو۔
Post a Comment