نیکی
نادر عزیز(اسسٹنٹ لائبریرین سینئرسیکشن۔جینیر یشنزاسکول
ساؤتھ کیمپس)
آج جب سونے کے لیے بستر پر گیا تو ایک عجیب اضطرا ری سی کیفیت
مجھ پر طاری ہو گئی۔ یادوں کا ایک ہجوم ذہن کے پردے پر اُمڈ آیا۔شاید آج معمول سے
پہلے سونے کی وجہ سے ایسا ہو رہا تھا یا شاید شدید ذہنی تھکاوٹ اور تناؤکے باعث نیند
آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔میں اضطراب کی حالت میں صرف کروٹیں بدل رہا تھا۔اتنے میں
میرے موبائل کی گھنٹی بجی میں نے موبائل کی اسکرین پر نظر ڈالی تو میرے ایک دوست
کا نمبر تھا۔میں آپ کو اپنے اُس دوست کا تعارف کرادوں کہ وہ اس حد تک کمال شخصیت
کا مالک ہے کہ اس شخص کو کو ئی سمجھ سکے یا نہ سمجھ سکے مگر وہ کسی بھی انسان کو
اس حد تک سمجھ جاتا ہے کہ وہ انسان شاید خود کو بھی کبھی اس حد تک نہ سمجھ پایا
ہو۔اس کی شخصیت میں ایسا کون سا عنصر شامل ہے کہ اس سے مل کر کسی اجنبی کو بھی
اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کا خیال
آتے ہی آپ کے ذہنی تناؤ میں کمی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی سوچ کو بھی جو کبھی کبھی
منفی غبار سے آلودہ ہوجاتی ہے اس کوبھی مثبت سمت میں اپنی توجہ مرکوز کرنے کے تعین
میں آسانی ہوجا تی ہے۔شاید میرے اس دوست کا شمار بھی اُنہی لوگوں میں ہو تا ہے۔
خیر مجھے اس وقت اس کے کال آنے پرتھوڑ ی سی حیرانی ہوئی۔بہرحال
علیک سلیک اور دو چار باتیں کرنے کے بعد اُس نے جب اپنے روایتی انداز میں یہ کہاکہ
"سب خیریت ہے ناتم کچھ پریشان لگ رہے ہو"تو میں بڑا حیران ہوگیا اور یہ
سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اُسے میری کیفیت کا اندازہ کیسے ہوا؟ میرے استفسار پر اس
نے کہا کہ تمہاا لب و لہجہ تمہاری پریشانی کو واضح طور پر بیان کر رہا ہے۔اُس کی
اِس بات نے تو گویا میرے ضبط کے سارے بندھن توڑ ڈالے اورمیری آنکھوں سے آنسوچھلک
پڑے اور میری آواز مزید روہانسی ہوگئی۔اس نے فوراًمجھے تسلی دی اور کہا کہ تم پریشان
مت ہو میں تمہارے پاس آرہا ہوں۔یہ کہہ کر اس نے کال منقطع کر دی۔میں اس کے اس
ردعمل پر تھوڑا حیران تھاکہ وہ اِس وقت میرے پاس کیوں آرہا ہے۔
تھوڑی ہی دیر بعد وہ میرے گھر کے باہر کھڑا
تھا۔اُسے دیکھتے ہی پتانہیں کیوں میرے دل و دماغ پر ایک سکون کی سی کیفیت طاری ہو
گئی۔ہم دونوں ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ گئے۔اس نے گھر میں خاموشی کی وجہ پوچھی تو میں
نے اُسے بتایا کہ بچے سردیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے اپنی نانی کے گھر گئے ہوئے ہیں۔یہ
سُن کر وہ کچن میں چلا گیا کہ میں آج تمہیں اپنے ہاتھ کی کافی بناکر پلاتا
ہوں۔تھوڑی دیر میں وہ کچن سے اپنے ہاتھ میں کافی کے دو کپ لیے برآمد ہوا۔ ہم دونوں
نے بڑے مزے لے لے کر کافی پی۔کافی ختم کرنے کے بعد اس نے مجھ سے جو بات کہی وہ مجھے
حیران کردینے کے لیے کافی تھی کہ "اپنی پریشانی تم مجھے بتاؤ گے یا اس کا حل
میں تمہیں بتاؤں " میں نے حیرانی
سے جواب دیا مطلب؟اس نے بولنا شروع کردیا۔تمہارے
ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ تم بہت حساس ہو اور یہی خوبی کبھی کبھی تمہاری خامی بن کر
تمہارے لیے مشکلات کا باعث بن جاتی ہے۔تم ہر کسی کے ساتھ بھلائی کرنا شروع کردیتے
ہو نا؟اس کے سوال پر میں نے اثبات میں سر ہلادیا۔وہ پھر مجھ سے گویا ہوا۔ہاں یہاں
تک تو بات صحیح ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ تم اپنے اچھے رویوں کے بدلے میں لوگوں
سے بھی اچھائی کی توقعات وابستہ کر لیتے ہوجو کہ ممکن نہیں کیونکہ احسا س وہ قیمتی
صفت ہے جو ہر کسی انسان کی صفت نہیں ہوتی۔اور آج یہی ہوا ہوگا کہ تمہیں کوئی مسئلہ
درپیش ہوا ہوگا اور تم نے حسب عادت اپنے کسی دوست سے مدد چاہی ہو گی اور اس نے مدد
نہیں کی ہوگی یا کر نہیں سکا ہو گا۔کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ جس وقت تم کسی سے مدد کی
اُمید کررہے ہو وہ اُس وقت خود کسی آزمائش میں مبتلا ہو اور تمہاری مدد کرنے کے
قابل نہ ہو اور تُم اس انسان کے ظاہری حالات دیکھ کر اُس سے بد گمان ہوگئے۔اور آج
شیطان نے تمہارے دل، دماغ اور تمہاری حساس طبیعت کو استعمال کرتے ہو ئے تمہیں یہ
بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ لوگوں کے ساتھ نیکیوں کا کیا فائدہ جو وقت پڑنے
پر میرے کام نہ آئیں؟اس نے مجھ سے سوالیہ انداز میں پو چھا تو میں نے کہا۔یہ پہلی
دفعہ ایسا نہیں ہوا میرے ساتھ اکثرو پیشتر ایسا ہی ہوتا ہے اور آج میں یہ سوچنے پر
مجبور ہو گیا ہوں کہ مجھے اپنے رویوّں میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ابھی میں کچھ اور
بولنے ہی والاتھا کہ وہ بول پڑا۔نہیں تم ایسا نہیں کروگے۔چند لوگوں کے منفی رویوں
کی وجہ تم اپنے مثبت رویے ترک کردوگے؟ اور کیا تم لوگوں کے ساتھ نیکیاں کرکے ان کا
اجر اس دنیا میں ہی لینا چاہتے ہو؟اگر یہ ارادہ ہے تو بے شک تم اپنی بھلائی کرنے کی
عادت کو ترک کر دو۔ لیکن اگر تم اپنی نیکیوں کا اجر آخرت میں اپنے نامہئ اعمال میں
اضافے اور اپنے درجات کی بلندی کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہو تو دنیا کی پرواہ کیے
بغیر اپنی اسی روش پر قائم رہو۔کیونکہ یاد رکھو کہ "اللہ نہ تمہاری نیکیاں
بھولے گا اور نہ Neki Kar Dariya Me Daal
لوگوں کے رویے"جو اس نے قرآن میں سورۃ مریم کی آیت 64میں
فرمادیا کہ "تمہارا رب بھولتا نہیں
"
میرا مشورہ یہ ہے سب سے پہلے تم یہ کرو کہ اپنے
دل و دماغ میں غیر ضروری خیالات کو لانے سے پرہیز کرواور اس مثل کے مصداق کہ
"نیکی کر دریا میں ڈال"یہ بھول جاؤ کہ تم نے لوگوں کے ساتھ اور لوگوں نے
تمہارے ساتھ کیا کیا۔اس سے ایک تو تمہاری دنیاوی زندگی بہت سہل اور آسان ہوجائے گی
اوریقین کرو کہ آخرت میں ان کا اجر دیکھ کر تم حسرت کروگے کہ کاش میں دنیا کی
پرواہ نہ کرتا اور مزید نیکیاں کر لیتا۔
وہ مجھے نصیحتیں کرتا جا رہا تھا اور میرے دل و
دماغ پر چھایا ہوا غبار آنسو ؤں کی صورت میں نکلتے ہو ئے مجھ سے اس بات کا عہد لے
رہے تھے کہ مجھے اپنی اچھائیوں اور لوگوں کی برائیوں کا حساب رکھنے کے لیے نہیں بھیجا
گیا اس کے لیے یوم حساب مقرر ہے۔
اچانک اس نے مجھے جھنجھوڑا کہ بھائی کہاں
کھوگئے تو میں ماضی کے دریچوں سے جب واپس پلٹا تومیں اپنے اس دوست کی آنکھوں میں
اس یقین کو دیکھ سکتا تھا کہ جو وہ مجھ میں میں دیکھ رہا تھا۔ میں نے ا سے گلے لگایا
اور اس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیااور اُسے رخصت کر دیا۔اس کے بعد جب میں اپنے
بستر پر سونے کے لیے گیا تو دل و دماغ پر سوائے سکون اور طمانیت کے کچھ نہیں
تھا۔اور پھر نہ جانے کب میں نیند کی وادیوں میں چلا گیا۔
Bohat khoob likha.. Mashallah...
ReplyDeleteIbrahim
DeletePost a Comment