مثالی انسان
نادر عزیز(اسسٹنٹ لائبریرین سینئرسیکشن۔جینیر یشنزاسکول ساؤتھ
کیمپس)
کہنے کو تو وہ ایک عام سا انسان تھا مگر نہ جانے ایسی کیا بات
تھی اس شخص میں کہ اُسکے چہرے پر نظر پڑتے ہی ہم میں سے کو ئی بھی اپنے سارے دکھ
تکالیف ا ور پریشانیاں گویا وقتی طو ر پر ہی سہی بھول جاتا تھا ۔اُسکے چہرے پر
سنجیدگی اور متانت ہلکی سی مسکراہٹ کی آمیزش کے ساتھ اکثر دیکھی جاسکتی تھی۔اس کو
زبان حال سے اپنا حال بتانے کی ضرورت کبھی پیش ہی نہیں آتی بلکہ وہ چہرے کے تاثرات
سے ہی معاملے کی نزاکت کا ادراک کر لیتا تھا۔
وہ ہر کسی کی پریشانی کا حل اس طرح سے پیش کر دیتا گویا اس نے
بارہا اس پریشانی کا سامنا کیا ہو۔اس کے ساتھ دوسرے افراد کے تعلقات دیکھ کر یہ
یقین ہو جاتا تھا کہ کہ یقینا یہ افراد آپس میں میں کسی خونی رشتے کے بندھن میں
بندھے ہو ئے ہیں۔مگرحقیقت اس کے بالکل بر عکس ہو تی۔کسی سے بھی اُس کے تعلقات کی
گہرائی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا تھا کہ کسی بھی محفل میں اس کا ذکر
آتے ہی زبان سے دُعا کے الفاظ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی بلکہ دل کی
گہرائیوں سے خود بخود دعائیہ کلمات ادا ہو جاتے تھے۔
اعلیٰ عہدے پر فائز ہو نے کے باوجود وہ عجز و انکساری کا پیکر
تھا۔ہر ایک کو سلام میں پہل کر نا تو گویا اس کی عادت تھی۔ہمارے ادارے میں شاید ہی
کو ئی ایسا فرد ہو جو اس کے اعلیٰ کردار کا معترف نہ ہو۔اورایسا شخص ڈھونڈنا
ناممکن تھا کہ جس کو اس سے کسی بھی قسم کی کو ئی شکایت ہو۔اس کے بقول کسی بھی
انسان سے تعلق کی بنیاد دولت، منصب یا اس کی حیثیت نہیں ہو نی چاہئے بلکہ اس کا
کردار ہو نا چاہئے۔ کسی کی خوشی ہو یا کو ئی دُکھ کی گھڑی اس کو سب سے آگے دیکھ کر
یہ اندازہ لگا نا مشکل ہو جاتا کہ وہ خود اس کیفیت سے گزر رہا ہے یا کو ئی اور۔
اُس کی ذات میں نہ جا نے ایسی کیا کشش تھی کہ ہر کوئی اُس کی جانب کھینچا
چلا آتا تھا۔ اُس کے ساتھ بیٹھ کرطویل وقت بھی مختصر لگتا تھا۔لہجہ کی سختی، زُبان
کی ترُشی اور کردار میں کسی منفی عنصر کی ملاوٹ تو گویا تھی ہی نہیں۔اس کا کردار
تو گویا شگفتگی، شائستگی،حلاوت اور مٹھاس کا مجموعہ تھا۔ حساس اس قدر کہ کسی کی
بھی ذرا سی تکلیف پر آنکھوں میں نمی کا اُتر آنا اور پھر اس کا مداوا کر نے کی ہر
ممکن کوشش کرنا اُسی کے کردار کا خاصہ تھا۔مزاح بھی اس کے مزاج کا حصہ تھا مگر کسی
کی بھی کردار کشی یا دامن داغدار کر نے کی بنیاد پر نہیں۔
ذہنی دباؤ یا تناؤ
کا شکار ہو نا شاید اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔اس کا کہنا تھا کہ زندگی میں دکھ،
تکلیف، پریشانی اور مصیبت نہ آئے ایسا ہو ہی نہیں سکتا اور کو ئی پریشانی یا
آزمائش ایسی نہیں ہو تی جس کا حل موجو د نہ ہو۔جس وقت ہمت اور صبر سے کام لیتے ہو
ئے اُس آزمائش کا سامنا اور مقابلہ کر نا ہو تا ہے اُس وقت ہم مایوس ہو کر آج کے
ساتھ ساتھ اپنا آنے والا کل بھی بر باد کرلیتے ہیں۔
اس کے آگے اگر کسی دوسرے شخص کی برُائی کی جاتی تو کبھی گفتگو
میں شامل نہیں ہو تا بلکہ بڑے پیار اور محبت بھرے انداز میں یہ کہہ دیتا کہ اگر آپ
کو اس شخص سے کو ئی شکایت ہے تو آپ خود اس سے جاکر اس حوالے سے بات کرلیں ایک تو
پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنے کی ہمارا مذہب اجازت نہیں دیتا اوراس سے کسی بھی
انسان کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہو تی ہیں۔کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی انسان
کے بارے میں محض غلط فہمی کا شکار ہو ں جب کہ معاملہ اس کے بر عکس ہو۔
ہم اکثر اوقات اس سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے اور بالاخر
میں اُس کے وسیع مطالعے کا معترف ہونا پڑتاکیوں کہ اس کے جوابات دلائل سے مزین ہو
تے حالانکہ کبھی کبھی اس کوہماری طرف سے ترُش سوالوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا مگر
وہ تو گویا جیسے پہلے ہی اس کے لیے تیار ہو تا
اور ہمیشہ کی طرح نہایت نرمی سے ہمیں لاجواب کر دیتا۔
صوم و صلاۃ کا پابندہو نے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے لباس اور وضع
قطع کو سنت نبوی ﷺسے مزین رکھنے کی ہر ممکن کو شش کرتا۔یعنی کہ اگر کہا جائے کسی
بھی دوسرے انسان کے لیے وہ ایک مثالی انسان تھا تو بے جا نہ ہو گا۔
مندرجہ بالا تحریر پڑھ کر شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں گے میں نے آپ
لوگوں کو اپنے کسی دوست کا تعارف کروایا ہے یا اپنی اس تحریر کے ذریعے اس کے کردار
کی عکاسی کی ہے۔مگر آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ جس کردار کا تعارف میں نے آپ
کے سامنے پیش کیا ہے وہ کسی اور کا نہیں آپ کا،
میرا اور ہر اس شخص کا ہو نا چاہئے جس نے نبی کریم روفُ الرَّحیم ﷺ کا کلمہ
پڑھا ہے۔کیوں کہ اللہ ربُّ العزَّت نے ہمارے لیے صرف نبی کریم روفُ الرَّحیم ﷺ کی
تابعداری کو ہی دُنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت قرار دیا ہے۔
Post a Comment