Nidamat Ke Anmol Aansu Jo Kabhi Raigan Nahi Jatay


میں نے ایک امیر گھرانے میں آنکھ کھولی۔دولت کی ریل پیل تھی۔ہر خواہش کی تکمیل اس کے اظہار کے ساتھ ہی پو ری ہوجاتی۔میری زندگی میں دکھ، تکلیف اور پریشانی جیسے الفاظ محض لکھنے، پڑھنے یا پھر بحث و مباحثے کی حد تک تو رہے مگرکبھی ان آزمائشوں کا سامنا کرنے کی نوبت نہیں آئی۔مالی آسودگی کے ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے میری طبیعت میں خودسری کا عنصر بھی شامل ہو چکا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اپنے علاوہ کسی کو خاطر میں نہ لانا میری شخصیت کی پہچان بن چکا تھایہاں تک کہ اکثر اوقات اپنے دوستوں کے ساتھ بھی انتہائی نامناسب رویوں کا اظہار کر بیٹھتا اور اُن کے سمجھانے اور غلطی پر ہو نے کے باوجود کبھی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کر تا بلکہ اُن کو ہی مورود الزام ٹہرادیتا اور یہاں تک کہہ دیتا کہ اگر میرے ساتھ دوستی رکھنی ہے تو رکھو ورنہ مجھے تمہاری کو ئی ضرورت نہیں کیوں کہ میں اس خوش فہمی کا شکار تھا کہ میر ے دوست میرے مجبورہیں جب کہ یہ میری بہت بڑی غلط فہمی تھی۔

 میرے گھر کا ماحول ایسا بالکل نہیں تھا جیسا کہ روایتی مشرقی گھرانوں میں ہو تا ہے بلکہ اس میں مغربی جھلک نمایاں تھی۔گھر میں مذہبی اقدارپر عمل صرف منانے کی حد تک محدود تھا۔ میرے گھر میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں تھی اگرکمی تھی تو وہ ایک دوسرے کو دینے کے لیے وقت کی۔ہماری زندگیاں اپنی خود ساختہ مصروفیات کے گرد ہی گردش کر تی رہتی تھیں۔ خوشیاں منانے کے طریقے ہوں یا غم بانٹنے کے مواقع مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا کہ ان کا اظہارصرف اداکاری کے سواء کچھ بھی نہیں۔

 احساسات اور جذبات سے عاری گھر صرف وہ جگہ ہوتی ہے جہاں بہت سارے انسان ایک ساتھ رہ رہے ہوں جبکہ مکان اس مسکن کا نام ہوتا ہے جہاں انسانوں کے درمیان اُنسیت، محبت اور اعتماد جیسے پائیدار رشتے موجود ہوں۔اور جس مسکن میں خونی رشتوں کے درمیان احساس جیسے حساس جذبات موجود نہ ہوں تو وہاں رشتے مکڑی کے جالے کی مانند کمزور ہو تے چلے جاتے ہیں۔

خیر میں جب ذرا بڑا ہو ا تو شہر کے بہترین اسکول میں داخل کر دیا گیا۔اس کے بعد اسکول سے کالج اور کالج سے یو نیورسٹی کا سفر کیسے اور کتنی جلدی طے ہوا اس کا پتہ جب چلا جب مجھے احساس ہو اکہ اب اپنی ذمہ داریوں سے مجھے خود نبرد آزما ہو نا پڑے گا کیوں کہ اب میں ایک ماہرآرتھوپیڈک سرجن کی حیثیت سے اس معاشرے کا حصہ بن چکا تھا۔

کچھ ہی عرصے بعد میرے گھر والوں نے میری شادی کر دی اور یوں میری ایک نئی زندگی کی شروعات ہو گئی۔میری شریک حیات کا مزاج میرے مزاج کے بالکل بر خلاف تھا۔وہ انتہائی تحمل مزاج، بر ُدبار اور معاملہ فہم خاتون تھیں۔مگر میں تو اپنی انا کے خول میں بند رہنا چاہتا تھا تو میں نے اُن پر بھی اپنی مرضی مسلط کر نا شروع کر دی مگر انہوں نے کبھی مجھے شکایت کا موقع نہیں دیاباوجود اس کے میرے فیصلے ہمیشہ کی طرح یک طر فہ اور انا پسندی کی عکاسی کر رہے ہوتے۔کیوں کہ لفظ سمجھوتے کو میں نے صرف اپنے مفادات سے وابستہ کر رکھا تھا۔مگر کہتے ہیں نہ  کہ ہر انسان کی برداشت کی ایک حد ہو تی ہے اور یک طر فہ سمجھوتے کبھی بھی رشتوں کی پائیداری کے ضامن نہیں ہو سکتے بالکل اسی حقیقت کے مصداق سمجھوتوں پر مشتمل پانچ سال گزارنے کے بعدآخر ایک دن میری شریک حیات نے دو بیٹوں سمیت علیحدگی کا فیصلہ کر لیا۔مگر اتنیبڑی بات کا بھی مجھ پر کو ئی اثر نہیں ہو ا۔یہاں تک کہ میں اپنی اولاد کو بھی فراموش کر بیٹھا اور اُن سے بھی رابطے منقطع کر لیے۔وقت تیزی سے گزرنے لگا اور اس بات کودس سال بیت گئے اس دوران دوست احباب نے آہستہ آہستہ مجھ سے کنارہ کشی اختیار کر لی کیونکہ اُ ن کے بقول جو انسان اپنی اولاد کو چھوڑ سکتا ہے اس کی نظر میں ہماری کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟حالانکہ اُن میں سے کئی افراد نے مجھے بارہا سمجھانے کی کوششیں بھی کی مگر وہ سب رائیگاں گئیں کیوں کہ جو انسان خود سمجھنے کی کوشش نہ کرے کوئی بھی اُسے قائل نہیں کر سکتا۔ڈھلتی عمر کے ساتھ مجھے اب یہ محسوس ہو نے لگا تھا میں تنہائی کی وجہ سے ذہنی تناؤکا شکار ہو نے لگا ہوں کیوں کہ میرا منفی رویوں کی جانب رجحان کچھ زیادہ ہی بڑھنے لگا تھا۔

ڈاکٹر بننے کے بعد بھی میں اپنی اُسی روش پر قائم رہاکہ کسی کی کیا مجبوری ہو سکتی ہے یہ کبھی جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کیوں کہ اس لفظ سے میرا کبھی واسطہ جو نہیں پڑا تھا۔خیر ایک دن میں اپنے ایک دوست کے اسپتال کی افتتاحی تقریب میں جانے کی تیا ری کر رہا تھا کہ میری سیکریٹری کی کال آئی۔اس نے شدید نو عیت کے حادثے کا شکار ہو نے والے کسی نوجون کا بتایا اس کے لہجہ سے پریشانی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی تھی۔اس نے کہا کہ سر فوری آپریشن کرنا پڑے گا اور اس کے والدین آپ ہی سے آپریشن کر وانے پر اصرار کر رہے ہیں۔میں نے انتہائی لاپرواہی سے کہا کہ دیکھو اگر کو ئی اور ڈاکٹر ہے تو اس کو بول دو ورنہ اُن کو کسی اور ہاسپٹل جانے کاکہہ دوکیوں کہ آج میں اسپتال نہیں آؤنگا۔یہ کہہ کر میں نے لائن منقطع کردی۔اُسکے فوراً بعد اُسی اسپتال سے میرے ڈاکٹر دوست کی کال آئی کہ میں نے اس لڑکے کا معائنہ کیا ہے شاید اس کی ٹانگ کاٹنی پڑے لیکن اگر آپ آکر ایک دفعہ دیکھ لیتے تو شاید کو ئی صورت نکل آئے اور وہ بچہ معذوری سے بچ جا ئے۔بس اتنا سُننا تھا کہ میں آپے سے باہر ہو گیااور کہا آپ کا کیا جارہا ہے کاٹ دیں ٹانگ۔دُنیا میں ٹانگوں کے بغیر بھی تو بہت سے لو گ زندہ ہیں نا۔یہ سُن کر انہوں نے فون بندکر دیا۔

دراصل میں اُس تقریب میں لازمی طور پر شرکت کرنا چاہ رہاتھا کیوں کہ شہر کے بڑے عمائدین اور رؤسائے شہر نے شرکت کرنا تھی اور چونکہ میں بھی مستقبل قریب میں اپنا ذاتی اسپتال کھولنا چاہ رہا تھا اور اس کے لیے تعلقات کا وسیع ہو نا بے حد ضروری تھا۔میں تیار ہو کر گھر سے نکلا۔ کیوں کہ مجھے پہلے ہی دیر ہو چکی تھی اسی لیے میں گاڑی کافی تیز رفتاری سے چلا رہاتھا۔جلدی پہنچنے کے لیے میں نے شہر کی ایک مصروف شاہراہ سے گزرکر جانے کا فیصلہ کیا۔میں اپنی مگن میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک ایک ٹرک جو کہ مخالف سمت سے آرہا تھا اس قدر تیزی سے مجھے روندتا ہو ا گزرگیاکہ لاکھ کوششوں کے باجودبھی میں اس سے نہیں بچ سکا۔اور پھر جب آنکھ کُھلی تو اپنے آپ کواُسی اسپتال کے بستر پر پایا جہاں میں بحیثیت ایک مسیحا ملازمت کرتا تھا۔

اِردگرد نظر دوڑائی تو سوائے تنہائی کے کسی کو اپناساتھی نہ پایا کہ جس کو میں اپنی یہ حالت دِکھا سکتا۔آج مجھے احساس ہوا کہ تکلیف کہتے کسے ہیں کیوں کہ میں نے تواپنی زندگی میں صرف فراز ہی دیکھے تھے مجھے کیا پتا تھا کہ زندگی نشیب و فراز دونوں کا مجموعہ ہو تی ہے۔ اتنے میں کمرے میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم داخل ہو ئی اور میرا معائنہ کرنا شروع کیا۔ اُن میں سے کئی چہرے ایسے تھے جنہیں میں نے کبھی سلام کرنا بھی گواراہ نہیں کیا۔اور آج مکافات عمل کے نتیجے میں میں اُ ن کے رحم و کرم پر تھا۔تھوڑی دیر معائنے کے بعد جو الفاظ ادا کیے گئے وہ وہیالفاظ تھے جوپانچ دن قبل کسی اور نے نہیں میں نے ادا کیے تھے کہ " ا گر ان کی جان بچانی ہے تو اِن کی ٹانگ کاٹنی پڑے گی۔ اور ایسا کوئی مسئلہ نہیں ٹانگوں کے بغیر بھی تو کئی لوگ زندہ ہیں نااس دنیا میں "مگر آج فرق صرف اتنا تھا آج کہنے والا سُن رہا تھا یعنی میں اور سننے والا کہہ رہا یعنی میراو ہ ڈاکٹر دوست۔اتنا سُننا تھا کہ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا حالانکہ میرے مطابق میں تو بڑے مضبوط اعصاب کا مالک تھا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا مجھے یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا۔اُس وقت اگر وقت میرے بس میں ہو تا تو میں اُسے اپنی ساری دولت دے کراس کے پیروں میں گر کر اپنے پیروں کی بھیک مانگ لیتا۔مگر گزرا وقت کبھی لوٹ کرنہیں آتا۔

اسی دوران اسپتال کے عملے سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ میرے گھر والوں نے محض فون کر کے میری خیریت دریافت کر نے پر ہی اکتفا کیا  اور کسی نے بھی اسپتال آنے کی زحمت تک گواراہ نہیں کی۔اور اس میں اُن کا نہیں میرا ہی قصور تھا۔بھلا کو ئی ا پنی مصروف زندگی سے میرے لیے وقت نکالتا بھی تو کیوں؟کیامیں نے اُنہیں اپنا وقت دیا؟کیا میں کبھی بھی ان کی پریشانی دور کرنے کا سبب بنا؟کیامیں نے کسی کے ساتھ کبھی اچھا برتاؤ کیا؟کیا میں نے اپنے علاوہ کسی اورکو اہمیت دی؟کیا میں نے کبھی کسی کو اپنے برابر سمجھا؟ یہ سوالات ایک کے بعد ایک میرے دماغ کو جھنجوڑ رہے تھے۔ اور ان سب کا جواب صرف میرا منفی کردارہی تھا۔کیوں کہ رشتے چاہے خونی ہوں یااُن کی بنیاد جذباتی وابستگی ہو ہمیشہ دو طرفہ مثبت رویے ہی اُن کی پائیداری کی ضمانت ہو تے ہیں۔

چند دن بعد میں دونوں ٹانگوں سے محروم اسپتال کے بستر پر پڑا اپنے گذشتہ سالوں کے دوران لوگوں کے ساتھ کئے ہو ئے اپنے تحقیرآمیز  رویوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔آج میری جیسی سوچ کے مالک لوگوں کے لیے میں بذات خود قابل حقارت بن چکا تھا۔میرے اعما ل کا وبال آج میری زندگی بھر کی معذوری کی صورت میں حقیقت بن کر سامنے آچکا تھا جس سے فراراب ممکن نہیں تھا۔اور اِسی معذوری کے ساتھ اب مجھے بقیہ زندگی گُزارنی تھی۔یہ سوچ سوچ کر آج پہلی بار مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو نے لگی تھی۔

اسپتال سے رخصت ہو کر میں جب گھر پہنچا توسوائے گھر کے اُنہی ملازمین نے کہ جن کو میں نے کبھی انسان سمجھا ہی نے نہایت محبت سے میرا استقبال کیا اور مجھے اپنے کمرے تک پہنچایا۔آج زندگی میں پہلی دفعہ میں نے اپنے لیے اُن کے چہروں پر پریشانی کے آثار دیکھے۔آج میں اُن سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں تھا۔ان چند دنوں کی محتاجی نے مجھے اچھی طرح سمجھا دیا کہ انسان کے رویے ہی اسے یا تو لوگوں سے دور کر دیتے یا قریب اب یہ اس انسان کا انتخاب ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔آج میں پہلی بار اپنے ضمیر کی عدالت میں ایک مجرم کی طرح کھڑا تھا اور مجرم بھی وہ کہ جس نے اپنے تما م جرائم کا اقراربھی کر لیاہواور وہ ان کی سزا نہیں بلکہ مداوا چاہتا ہو مگر کیسے۔یہ سوچتے سوچتے نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔

صبح آنکھ کھلتے ہی نہ جانے کیوں مجھے اپنا دوست نادر یاد آگیا۔جو ایک بہترین ماہر نفسیات تھا۔اور وہ ایک واحد دوست تھا جس نے کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔میرے بُلانے پر وہ فوراً میرے گھر آگیا۔میں نے اُسے اپنے کمرے میں ہی بلالیا۔جیسے ہی وہ میرے پاس آکر بیٹھا میرے ضبط کے سارے بندھن جیسے ٹوٹ گئے اور میں اُس سے لپٹ کر کسی بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔کافی دیر تک رونے کی وجہ سے میرے دل کا غبار جیسے دُھل سا گیا ہو اور میں کچھ کہنے کے قابل ہوا تو وہ مجھ سے پہلے ہی بول پڑا مجھے پتہ ہے تمہیں اپنی غلطی کااحساس ہو گیاہے لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہو ئی ہے۔ آج بھی تُم اپنوں کو واپس لاسکتے ہو۔مگر کیسے میں نے ہچکیاں لیتے ہو ئے اس سے سوال کیا۔بہت آسان ہے تم سب سے اپنے منفی رویوں کی معافی مانگ لو۔اور اس کے ساتھ ساتھ اپنا رویہ بھی درست کر لو۔انشاء اللہ،  اللہ بہتر کرے گا اور تمام معاملات درست ہو جائیں گے۔وہ یہ کہہ کر تھوڑی دیر بیٹھا اور رخصت ہو گیا۔میں نے اُس کی نصیحت پر عمل کرنا شروع کردیا۔اپنے تمام اپنوں سے چاہے وہ کسی بھی رشتے سے میری ذات سے منسلک تھے رابطے کیے اور اُن سے اپنے سابقہ رویوں پر معافی مانگی۔ میرے لیے یہ ایک حیران کُن با ت تھی کہ اُن میں سے ہر ایک نے انتہائی خوشدلی سے میری معذرت کو قبول کیا اور شکوہ کی بجائے شکریہ ادا کیا۔

 اسی دوران ایک دوست کے ذریعے مجھے پتہ چلا کہ میری سابقہ بیوی نے ابھی تک دوسری شادی نہیں تو میری خوشی کی کو ئی انتہا نہیں رہی۔کئی برس بعد میں نے اس سے اور اپنے بچوں سے رابطہ کیا تو میری توقع کے بر خلاف انہوں نے مجھے قبول کرنے میں ذرا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور دوبارہ وہ میری زندگی کا حصہ بن گئے۔

چند مہینوں بعد میں نے اپنے صحتیاب ہو نے کی خوشی میں گھر میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔میرے گھر کا وسیع و عریض لان مہمانوں سے بھرا ہو اتھا۔سب میرا ہی پوچھ رہے تھے۔اور جب میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ اپنے گھر کے لان میں آیا تو سب کے چہروں پر حیرانگی کے ساتھ ساتھ خوشی کے اثرات بھی واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے۔سب نے مجھے نئی زندگی شروع کر نے پر مبارک باد دی۔

دعوت کے اختتام پر میں اپنے دونوں بیٹوں کے سہارے کمرے میں داخل ہو تے ہو ئے یہ سوچ رہا تھا کہ اتنے سالوں تک میں نے منفی رویے اپنا کر کس کا نقصان کیا؟صرف اورصرف اپنا نہ کہ کسی اور کا۔لیکن دیر آئے درست آئے کے مصداق مجھے اپنی غلطی کا احسا س ہو چکا تھا۔اور محض اپنے ماضی کے رویوں پرندامت اور معافی جیسے عظیم فعل کی بدولت آج میرے اپنے میرے ساتھ اور میں اُن کے ساتھ تھا۔

 

Post a Comment

Previous Post Next Post