Ahsas E Zimmedari Kainat Ki Mehengi Tareen Cheez Hai

 احساس

Ahsas E Zimmedari Kainat Ki Mehengi Tareen Cheez Hain

 نادر عزیز(اسسٹنٹ لائبریرین سینئرسیکشن۔جینیر یشنزاسکول ساؤتھ کیمپس)

آج سردی معمول سے کچھ زیادہ ہی تھی۔تمام گھر والے کھانا کھانے کے فوراً بعد ہی اپنے اپنے بستروں میں گھس گئے۔میں بھی اپنے کمرے میں آکر سونے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ میرے کمرے کے دروازے پر کسی نے دستک دی میں نے دروازہ کھولا تو میری بیٹی زینب تھی میرے پوچھنے پر اس نے اپنی فرمائش کا اظہار کردیا کہ بابا مجھے مونگ پھلی کھانی ہے۔اور آپ مجھے ابھی لاکر دیں مجھے کچھ نہیں پتا۔اُس کی اس معصومانہ ضد کے آگے میں نے ہتھیار ڈال دیے حالانکہ اس کی ماما نے اُسے سمجھانے کی بارہا کو شش کی مگر اولاد کی محبت کے آگے کبھی کبھی ہا ر جانا بھی اچھا لگتا ہے۔خیر میں جیکٹ پہن کر گھر سے پیدل ہی نکل پڑاکیونکہ ٹھیلے والے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ابھی رات کے صرف نو ہی بجے تھے مگر سرد ا اور یخ بستہ ہواؤں کی وجہ سے سڑکیں سنسان تھیں۔روڈ پر نکلتے ہی مجھے مطلوبہ ٹھیلے والا مل گیا میں نے اس سے مونگ پھلی لی اور واپس گھر کی طرف لوٹنے لگاکہ اچانک کسی کی آواز نے رکنے پر مجبور کر دیا۔صاب یہ سامان ہم سے خرید لویا ہم کو کچھ پیسہ اُدار دے دو تا کہ ہم اپنا بیٹی کے لیے گھر کانالے جاسکے ہمارا خیر ہے مگر اس نے دو دن سے کچھ نی کایاآپ یقین کرودو دن سے ہمارا بکری بالکل نہیں ہوا اللہ آپ کا بلا کرے۔اس کی ٹو ٹی پھوٹی اردو، اس کی صاف گوئی اور اس کے چہرے کے تاثرات اس کی صداقت کی گواہی دے رہے تھے۔میں نے اُس کے چہرے کو غور سے دیکھا تو مجھے ایک تجسس سی ہوئی کہ یوں تو لوگ نامساعد معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ یہ کام کر نے پر مجبور ہوتے ہیں مگر اس کے چہرے کے نقوش کچھ اور ہی کہا نی بیان کر رہے تھے۔میں اس کے ساتھ ایک زیر تعمیر گھر کے باہر چبوترہ پر بیٹھ گیا اور اس سے سوالیہ انداز میں اس کے حالات کے بارے میں پو چھا تو اس نے ایک طویل سرد آہ بھرنے کے بعداپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں بولنا شروع کردیا۔جو میں یہاں اپنے الفاظ میں آپ کے آگے بیان کر رہا ہوں۔

میری پیدائش افغانستان کی ہے۔افغانستان کے نا مساعد حالات کی وجہ سے ہم دس سال پہلے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔چونکہ ہمارے والدین ہمیشہ ساتھ رہنے کے قائل تھے اسی لئے میرے والد صاحب نے کراچی کے ایک پوش علاقے میں دو ہزار گز کا پلاٹ لے کر اپنی مرضی کا گھر تعمیر کروایا جو ہر طرح سے ایک مکمل اور خوبصورت گھر تھا۔اس کے بعد ہم چاروں بھائیوں کو اپنا اپنا کاروبار بھی سیٹ کروادیا۔ پھر کچھ عرصے بعد انہوں  نے ہماری شادیاں بھی کروادیں۔زندگی اپنی رعنائیوں سمیت برق رفتاری کے ساتھ گزر رہی تھی کہ اچانک ایک دن والد صاحب ہمیں اس دنیا میں تنہا چھوڑ کراپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔میں چار بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں۔میری ہمیشہ کوشش رہی کہ بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بھائیوں کو بڑا بن کر بھی دکھاؤں۔ اور والد صاحب کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ بڑا ہونے اور بڑا بن کر دکھانے میں بڑا فرق ہو تا ہے۔کیونکہ بڑا بھائی والد صاحب کی طرح ہوتا ہے۔والد صاحب نے اپنی زندگی میں ہی وراثت کی تقسیم کر دی تھی تا کہ ان کے بعد ہمیں کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ کر نا پڑے۔اور ساری زندگی ان کی یہی نصیحت اور وصیت رہی کہ ہم ایک ساتھ ہی رہیں تو اچھا ہے۔مگر والد صاحب کے انتقال کے بعد میرے بھائیوں کو نہ جانے کیا ہو گیا انہوں نے اس گھر کوفروخت کرنے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا جو والد صاحب کی نشانی تھا۔اور جس میں ہم ایک ساتھ رہتے تھے۔میں نے انہیں سمجھانے کی بارہا کو ششیں کیں مگر وہ سب بے سود گئیں۔وہ صرف اسی بات پر مضر تھے کہ ہمیں اس گھر کو بیچ کر اپنا حصہ چاہیئے۔ہمیں اپنے کاروبار کو مزید وسعت دینی ہے۔اور ہمیں اس کے لیے مزید خطیر رقم کی ضرورت ہے۔اور پھر ایک دن وہ بھی چشم فلک نے دیکھا کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اس گھر کو کسی اور مکین کے حوالے کر رہے تھے جو ہمارے والد صاحب کے خوابوں کی تعبیر تھا۔میں نے والدہ کو اپنے ساتھ رکھ لیا۔ مگر والد صاحب کے انتقال کے بعد اور دیگر بیٹوں کی جدائی میں اُن کی طبیعت مستقل خراب رہنے لگی کیونکہ علیحدگی کے بعد میرے بھائیوں نے تعلقات محدود کر لیے۔حالانکہ ہم تو ایک دوسرے کی نظروں سے دور ہوئے تھے نہ کہ دلوں سے۔ اور پھر ایک د ن والدہ بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئیں۔ان کے جنازے میں میرے چھوٹے بھائیوں نے اس طرح سے شرکت کی کہ شاید وہ کسی اجنبی کے جنازے میں شریک

Ahsas E Zimmedari Kainat Ki Mehengi Tareen Cheez Hain

ہوں۔

خیر زندگی پھر اپنی ڈگر پر رواں دواں ہوگئی۔مجھے چند دنوں کے لیے اپنے کاروبار کے سلسلے میں بیرون ملک جا نا پڑا مگر مجھے کیا خبر تھی کہ میرے پیچھے مجھ پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے۔میرے نمبر پر کال آئی دوسری طرف میری بیوی تھی وہ بہت پریشان لگ رہی تھی۔وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میرے بھائی آئے تھے اور یہ کہہ کر گئے ہیں ایک مہینے کے اندر اندر یہ گھر خالی کر دوورنہ ذمہ دار تم لوگ خود ہوگے۔ابھی میری بیوی کی کال منقطع ہوئی ہی تھی کہ میری دکان کے ملازم کی کال آگئی کہ اسے بھی وہی کہا گیا تھا جو میری بیوی کو کہا گیا تھا۔میں عجلت میں گھر واپس آگیا اور فوراً اپنے وکیل سے رابطہ کیا مگر اس سے رابطہ کر نے پر اس نے نہایت تحقیر آمیز لہجہ میں اس بات کا انکشاف کیا کہ اب تو آپ میری فیس دینے کے قابل بھی نہیں رہے کیونکہ آپ کے بھائیوں نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کر آپ کے تمام بینک اکاؤنٹ بھی منجمد کر وادیئے ہیں۔یہ خبر تو گویا میرے اعصاب پر بجلی بن کر گر پڑی۔میں نے بڑی مشکل سے اپنے اعصاب پر قابو پایا اور اپنے دیگر دوستوں سے رابطے کر نا شروع کردیئے مگرشاید میں یہ بھول چکا تھا کہ لوگ تو آپ کی حیثیت دیکھ کر آپ کو حیثیت دیتے ہیں اور میری حیثیت اب ایسی نہیں رہی تھی کہ لوگ مجھے حیثیت دیتے۔

اور پھر ایک دن میں اپنی بیوی اور بیٹی سمیت ایک مضافاتی علاقے کے ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں منتقل ہوگیا۔ ایسے وقت میں میری بیوی اور بیٹی نے مجھے سہارا دیا میری ہمت بندھائی اور مجھے ٹوٹنے سے بچالیا۔حالانکہ انہوں نے کبھی بھی ایسے حالات کاسامنا نہیں کیا تھا۔ میں نے جو میرے پاس جمع پونجی تھی اس سے کچھ سامان خریدا اور اسے پیدل ہی گلی گلی اور بسوں میں فروخت کرنے نکل پڑا کیونکہ میرے پاس ٹھیلا خریدنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔اور آج میں آپ کے سامنے ہوں۔

میں حیرت کی تصویر بنا اس کی کہانی سنتا جا رہا تھا۔اور اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ رشتے چاہے خونی ہوں یا نہیں اس وقت تک پائیدار نہیں ہو سکتے جب تک اُن میں دوطرفہ احساس کا عنصر شامل نہ ہو۔اچانک میرے موبائل کی گھنٹی بجی تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے گھر سے نکلے ہوئے کافی دیر ہو چکی ہے۔میں نے اُسے تسلی دی کہ دنیا مکافات عمل ہے اور کچھ معقول رقم اس کے حوالے کی تا کہ اس کے نان نفقہ کا انتظام ہو جائے اور سے اپنا گھر بھی دکھا دیا کہ اگر کبھی ضرورت پڑے تو میرے پاس آجانا کیوں کہ اپنی استطاعت کے مطابق اتنی مدد تومیں کر سکتا تھا۔اس کے بعد میں گھر واپس آگیا۔

اس واقعے کو ایک برس بیت گیا۔ایک دن میں اپنے گھر پر موجود تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی میں باہر نکلا تو مجھے دیکھ کر حیرانگی کے ساتھ ساتھ بے انتہا خوشی بھی ہو ئی کہ وہ کوئی اور نہیں وہی شخص تھا جو کچھ عرصہ قبل اپنوں کی ستم ظریفی کی داستان الم کی تصویر تھا۔مگر آج اپنی ہمت اور ثابت قدمی سے اس آزمائش سے نکل کر دوبارہ اپنا وہی مقام حاصل کر چکا تھا کہ جس کے وہ قابل تھا۔وہ ایک بڑی سی گاڑی میں اپنی بیٹی اور بیوی کے ساتھ موجود تھا۔زُبان حال سے اس کا  حال پو چھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔کیونکہ اس کی خوشحالی اس بات کی گواہی دی رہی تھی کہ وہ زندگی کے نشیب سے نکل کر فراز کی جانب رواں دواں ہے۔میرے باہر نکلتے ہی وہ میرے گلے لگ گیا۔اور میرااس بات پر یقین مزید پختہ ہوگیا کہ جن رشتوں میں دو طرفہ احساس کا عنصر شامل نہ ہو وہ کبھی پائیدار نہیں ہوتے۔آج وہ میری اور میں اس کی فیملی کا حصہ ہوں کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر رشتہ خونی ہو کچھ رشتے احساس کے بھی ہو تے ہیں۔

2 Comments

Post a Comment

Previous Post Next Post