Chiragh Taale Andhera |
چراغ تلے اندھیرا
میں اپنے وسیع حلقہ احباب میں ایک سماجی کارکن
کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔میرے شب و روز ورکشاپس، میٹنگزاورسیمینارز جیسی
سرگرمیوں کے گرد گردش کرتے رہتے تھے۔اسی سلسلے میں اکثر و بیشتر کبھی اندرون ملک
تو کبھی بیرون ملک آنے جانے کا سلسلہ لگا رہتا تھا۔ میری اہلیہ ایک معروف سرجن
تھیں اور ان کا بھی ذیادہ تر وقت گھر سے باہر ہی گزرتا تھا۔جبکہ میرا اکلوتا بیٹا
شہر کی بڑی نجی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور وہ بھی اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں
مصروف رہتا تھا۔ شاید یہی مصروفیات تھیں جوہمیں ایک ساتھ گھر پر وقت گزارنے کا
موقع بھی بہت کم دیتی تھیں۔مجھے اپنے بیٹے کی تعلیمی کارکردگی کی معلومات بیٹے اور
اس کے تعلیمی ادارے کے میسیجز کے ذریعے ہی پتہ چلتے تھے۔یہاں تک کہ وہ تعلیم سے
فراغت کے بعد بر سر روزگار بھی ہوگیا۔
ایک دن میں ایک سیمینارمیں شریک تھا جس کا
موضوع تھا " بچوں کی تربیت میں والدکا کردار"۔ میری ذیادہ تر تقاریر
میرا سیکریٹری لکھا کرتا تھا جسے اردو اور انگریزی زبانوں پر کا فی عبور حاصل
تھا۔میں ان گنت محافل میں بے شمار موضوعات پر تقاریر کر چکا تھا اور الفاظ کو
جذبات کے قالب میں ڈھال کر سامعین کے اوپر سحر طاری کرنے کا ملکہ بھی حاصل تھا۔میں
نے ہمیشہ کی طرح پر اعتماد اندز میں تقریر کی اور دادو تحسین وصول کرتا ہوا اس
محفل سے رخصت ہوا۔
حسب روایت رات دیر سے گھر آیا۔مگر آج نہ جانے
کیوں میرے قدم خود بخود بیٹے کے کمرے کی جانب اُٹھ گئے۔میں نے آہستگی سے اس کے
کمرے کا دروازہ کھولا اور اپنے بیٹے کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا۔ وہ کسی سے موبائل
پر بات کر رہا تھا اُسے شاید میرے کمرے میں آنے کا علم نہیں ہو سکا۔اس کا دوست ا
سے کسی تقریب کی رُوداد سنا رہا تھا۔مجھے دوسری طرف کی گفتگو بھی واضح سنائی دے
رہی تھی کیونکہ اس نے لیپ ٹاپ پر کام کرنے کی وجہ سے اپنے موبائل کا اسپیکر آن کیا
ہو اتھا۔دوسری جانب سے جو الفاظ ادا کئے جا رہے تھے وہ کسی اور کے نہیں بلکہ میرے
اپنے الفاظ تھے جو اب سے کچھ دیر پہلے ہی کسی تقریب میں میرے جذبات کی عکاسی کر
رہے تھے۔جب اس نے میرا ایک جملہ ادا کیا تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی کہ"
والد کواپنی اولاد کی تربیت اس نہج پر کرنی چاہیے کہ ُاس میں اُس کے والد کے کردار
کی جھلک دیکھی جاسکے "۔اس وقت گویا میں اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑا تھا اور
وہ جھنجھوڑ جھنجھوڑکر مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ آیا میں نے عملی طور پر ایسا کیا یا
صرف ہر محفل میں بیان کرنے والے اس بیان کو صرف بیان کی حد تک ہی محدود رکھا اور
کبھی یہ سوچنے کی زحمت تک گواراہ نہیں کی کہ بیٹے کی صرف معاشی ذمہ داریوں سے نبرد
آزما ہونے کے بعد دیگر تمام ذمہ داریوں سے چشم پوشی کر کے حق پدری ادا کرنے میں
کامیاب ہوگیا۔ ابھی میں اسی کشمکش میں تھا کہ اچانک میرے بیٹے نے اپنے دوست سے بات
مکمل کر کے میری طرف دیکھا تو اس کی آنسوؤں سے تر آنکھوں میں وہی احساسات موجود
تھے جو کسی باپ کی شفقت سے محروم کسی معصوم بچے کی آنکھوں میں ہوتے ہیں۔میں نے
اُسی وقت اُسے گلے سے لگا لیا۔میرے آنسو اور میری ہچکیاں مجھ سے اس بات کا عہد لے
رہی تھیں کہ اب میری ذات کا محور و مرکزصرف اور صرف میرا بیٹا ہوگا۔
Good Keep it up
ReplyDeletePost a Comment