Kiran Ki Umeed


 کرن کی اُمید

نادر عزیز(اسسٹنٹ لائبریرین سینئرسیکشن۔جینیر یشنزاسکول ساؤتھ کیمپس)

آپ لو گ شاید یہ سوچ رہے ہو ں گے ہم نے غلطی سے اُمید کی کرن کی جگہ کرن کی اُمید لکھ دیاہو مگر آپ لوگ اُس انسان کا درد شاید کبھی نہ سمجھ سکیں جو عمر کے اس حصے کے قریب پہنچ چکا ہو کہ جب شناختی کارڈ میں مدت میعاد کے خانے میں تاحیات لکھ دیا جاتا ہومگر وہ ابھی تک زوجہ کی کھوج میں ہو۔اب آپ سوچ رہے ہوں گے دوسری، تیسری یا پھر چوتھی۔ایسا بھی ہر گز نہیں گنتی تو پہلی سے شروع ہو تی ہے ہاں یاد آیا ایک سے پہلے صفر بھی ہوتا ہے اور ہم اپنے آپ کو اُسی صفر سے تعبیر کرتے چلے آرہے ہیں کیوں کہ صفر وہ واحد عدد ہے جس سے کسی بھی عدد کو ضرب دیں وہ بھی صفر میں ہی تبدیل ہو جاتا ہے شاید یہی فارمولا ہماری زندگی کا جز بن کر رہ گیا تھا اب ظاہر سی بات ہے کہ جس کی گنتی شروع ہی نہ ہو ئی ہو تو وہ آگے بڑھانے کی تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ہم بچپن سے لوگوں کی زبانی یہی سنتے سنتے بڑے ہو گئے کہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں اور زمین پر انہیں نکاح کی صورت میں ایک خوبصورت اور پائیدار بندھن سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔مگر ہمیں عمر کے اس حصے تک تو ایسے کسی بندھن میں بندھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔پھر ہم کیسے اس بات کی صداقت کے معترف ہو جائیں۔

ویسے پہلے ہم آپ کو اپنا تعارف تو کرادیں اوراس کے ساتھ ساتھ اپنی آپ بیتی بھی سنادیتے ہیں ہو سکتا ہے کہ آپ کے پاس ہمارے اس گھمبیر مسئلہ کا حل موجود ہو۔بچپن سے ہی ہمیں خودنمائی، خودپسندی، خودغرضی، دوسروں کے مال پر سخاوت (جسے ہاتھ صاف کرنا)کہتے ہیں جیسی صفات کے بر ملا اظہار کا جنون کی حد تک شوق تھااور اسی شوق کی تکمیل کے کئی بار نتائج بھی بھگتناپڑے اب وہ کس صورت میں     یہ ہم نہیں بتا سکتے۔اور ہاں ضدی تو ہم بلا کے تھے اور ایک بار جو کرنے کی ٹھان لیتے تھے وہ کر کے ہی چھوڑ تے تھے وہ الگ بات ہے اس کے بعد لوگ ہمیں نہیں چھوڑتے تھے۔

ہمیں اپنا بچپن صحیح سے یاد تو نہیں مگر نہ جانے ہم نے ایسے کون سے کارنامے انجام دیئے تھے کہ ہمارے گھر والے ہمارے بچپن کے دور  کوآزمائش کے دور کے طور پر یاد کر تے ہیں۔ خیر جب ہم دسویں جماعت تک پہنچے تو ہمیں آئن اسٹائن مائنس کہا جانے لگا کیوں کہ اکثر وبیشتر استاد کی غیرحاضری کی صورت میں پڑھانے کھڑے ہو جاتے اور بڑی دیر تک بورڈ پر کچھ تحریر کر تے رہتے مگر جب پلٹ کر اپنے ہم جماعتوں کی جانب دیکھتے تو کلا س میں ہمارے علاوہ کوئی موجود نہیں ہو تا۔

اُن کے انہی منفی رویوں کی وجہ سے ہم نے کئی دفعہ پڑھانے سے انکار بھی کر دیا مگر بے حد اصرار پر دوبارہ یہ بار گراں اٹھانے پر آمادہ ہو جاتے اور یہ انکار کر نے والے بھی ہم خود ہی ہو تے اور مان جانے والے بھی خود کیوں کہ ہمارے ہم جماعت ساتھیوں کی ہمارے متعلق رائے یہ تھی کہ ویسے تو پڑھانے سے سیکھنے کی صلاحیتیں بھی بڑھتی ہیں مگر آپ اگر ہمیں پڑھائیں گے جو تھوڑا بہت آپ کو آتا ہے اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے حالانکہ کئی ایسے عنوانات ہم نے اپنے ہم جماعتوں کو پڑھانے کی کوشش کی جن پر ہمیں خود بھی عبور نہیں تھا مگر ہم کمال ہو شیاری سے عنوان کا آغاز ہی سوالات سے کرتے تھے اور اُن کے جوابات سے ہی ہم اپنے جوابات نکال لیتے تھے لیکن اگر کو ئی دوسرا طالب علم اس بات کی نشاندہی کرتا کہ کہ آپ غلط پڑھا رہے ہیں تواول تو ہم ہمیشہ کی طرح اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے لیکن اگر ناقدین کی تعداد بڑھ جاتی تو الٹا ہم اُنہی پراصلاح کی ذمہ داری ڈال دیتے بس پھراس کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہو تا یہ آپ خوب سمجھ سکتے ہیں۔

اُس کے بعد ہم کالج میں پہنچ گئے بس پھر کیا تھا اکثر و بیشتر ہم دوران کلاس کلاس سے باہر ہی ہوتے تھے اس کا بھی ہمیں کبھی ادراک نہیں ہو سکا کہ آخر اس کی وجہ کیا  ہے حالانکہ ہم تو کلاس میں سب سے زیادہ سوالات کر نے والے ایک ہونہار طالب علم تھے۔ایک دن تو حد ہی ہو گئی کہ ہمیں کہا گیا کہ کل اپنے والد صاحب کو لے کر کالج آئیے گاور نہ آنے کی کو ئی ضرورت نہیں۔وہ تو اگلے دن ہمیں والد صاحب کی زبانی پتہ چلا کہ ہمارے اساتذہ کرام کا اصل مسئلہ ہماری جانب سے کیے جانے والے سوالات تھے اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کسی دوسرے مضمون کا سوال کسی  دوسرے مضمون کے استاد سے کر لیا جائے۔

اسی طرح کی کامیابیوں کی منازل طے کر تے ہو ئے ہم یونیورسٹی میں وارد ہو گئے مگر یہاں تو ماحول ہی الگ تھاکوئی کسی کا پرسان حال نہیں تھا۔ہاں ایک چیز جو وافر مقدار میں موجود تھی وہ تھی جس سے کائنات میں ہے رنگ یعنی حُسن زن۔اور یونیورسٹی پہنچ کر ہم بقول شاعر" حسن زن سے ہے کائنات میں رنگ"کے قائل ہو گئے اور اس خواہش میں مبتلا ہو گئے کہ ہم بھی کسی حسین زن کی حسین زلفوں کے اسیر ہوجائیں مگر یہاں بھی لوگوں کی ہم سے وہی بے رخی حالانکہ ہماری کلاس کی کئی حسیناؤں نے تو ہم سے اساتذہ کی غیر موجودگی میں پہلی کلاس تک لی مگر دوسری کی نوبت ہی نہیں آئی کیوں کہ وہ بھی شاید ہماری علمی قابلیت سے آگاہ ہو چکی تھیں۔

ہماری تعلیمی کامیابیوں میں کافی حد تک ہاتھ ہمارے تعلیمی ادارے کا ہی ہو تا تھا کیوں کہ ہم کبھی پوزیشن حاصل کر نے کی پو زیشن میں نہیں رہے وہ تو ہمیں ادارے کی جانب سے بتا دیا جاتاتھا کہ آپ کو اگلی کلاس میں جانا ہے کیوں کہ ہماری ایک جماعت سے دوسری جماعت تک سفر کا دورانیہ کبھی کبھی دو سے تین سالوں پر بھی محیط رہا۔وہ تو یونیورسٹی آکر ہمیں اس بات کی تسلی ہوئی کہ یہاں درجات عبور کر نے کے لیے وقت اور عمر کی کوئی قید نہیں اور ہم اس وقت تک اس ادارے میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں جب تک کہ زندگی کی قید سے آزاد نہیں ہو جاتے یا کر دیئے جاتے۔

ایک دن ہمارے گھر والوں نے ہم سے انتہائی ناگواری اور بیزاری سے پوچھا شادی کا ارادہ ہے یا نہیں کیوں کہ اب تم باپ کی عمر سے نکل کر کچھ سالوں میں دادا کی عمر کے خانے میں داخل ہو نے واے ہواور کیا رشتہ بھی ہمیں ہی ڈھونڈنا پڑے گا یا ہے کوئی تمہاری نظرمیں؟ہم نے انتہائی رعونت سے جواب دیا کو ئی ہماری نظر میں ہو نہ ہو ہم کئی لوگوں کی نظر میں ہیں۔گھر والوں کو یہ سن کر بھی کو ئی خوشی نہیں ہوئی شاید انہیں ہم پر اعتبار نہیں رہا تھا۔انہوں نے کہا اچھا تو ایسا کرو تم خود ہی دیکھ لو پھر ہمیں بتا دینا۔ خیر ہم نے تہیہ کر لیا کہاپنے ہم سفر کی تلاش کا کام تو کم از کم خود کرلیں تا کہ ہمیشہ کی طرح کسی دوسرے کو اپنی غلطیوں کا مورود الزام نہ ٹہرائیں۔

ہم نے اپنے ہم سفر کی تلاش کا آغاز اپنی ہم جماعتوں سے کرنا چاہا مگر جی انکل، جی بھائی بولیں جیسے الفاظ نے تو جیسے ہمارے اوپر بجلی ہی گرانا شروع کردی اب ہم جاتے تو جاتے کدھر؟ہم بھی تو طالب علم ہی تھے وہ ایک الگ بات تھی کہ ہمارا سفر تھوڑا زیادہ ہی طویل ہو گیا تھااور اب ہمیں ایک ہم سفر کی کمی محسوس ہو نے لگی اور ہم نے تو عمر کی کو ئی قید بھی نہیں رکھی تھی کیوں کہ اب ہمیں بھی کچھ نہیں پتہ تھاکب قید عمر سے آزاد کر دیئے جائیں۔

ایک دن ہمارے ایک ساتھی طالب علم نے ایک خاتون کا بتایا اور کہا کہ کل میں تمہیں اُن سے ملوادیتا ہوں میں نے اس سے تفصیل پوچھنا چاہی تو اس نے کہا کل مل کر تم خود ہی پوچھ لینا۔اگلے دن ہم خوب بن ٹھن کر اپنے اس دوست کے ساتھ مقررہ ریسٹورینٹ پہنچ گئے دوست نے دور سے اُن صاحبہ کی نشاندہی کی اور خود کچھ دور جا کر بیٹھ گیا۔ہم ان کی ٹیبل کے پاس پہنچ کر اپنا گلا کھنکار کراُ ن کی توجہ حاصل کر نا چاہ رہے تھے مگر عمر کا تقاضہ تھا شاید وہ کھنکار باقاعدہ کھانسی میں تبدیل ہو گئی وہ تو انہوں نے فوراً پانی کا گلا س ہما ری طرف بڑھا دیا تو کھانسی رکی۔مگر ابھی سانسیں پوی طرح بحال بھی نہیں ہو ئی تھیں کہ ہماری نظر اُ ن کے چہرے پر پڑ گئی تو کھانسی نے ہچکی کی صورت اختیا رکرلی کیوں کہ اُ ن کے چہرے کے نقوش اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اُن کا تعلیمی سفر تو ہم سے بھی بہت زیادہ طویل تھا۔

ہم نے ہمت کر کے بات چیت شروع کی تو وقت کا پتہ چل ہی گیا ور ہم یہ دعا کر نے لگے کہ جلد از جلد ملاقات اختتام پذیرہو مگر ان خاتون  کی گفتگو ختم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی آخرکار اعصاب شکن ملاقات کا دور اُن کے اس جملے پر اختتام پذیر ہو اکہ میں آ پ کے مثبت جواب کا انتظار کروں گی۔میں جیسے ہی گھر میں داخل ہواتو خلاف توقع تمام گھر والے ٹی وی لاؤنج میں اس طرح جمع تھے گویا وہ ہمارا ہی انتظار کر رہے ہوں اور حقیقتاً وہ ہمارا ہی انتطار کر رہے تھے۔سب گھر والوں نے بیک وقت ہم سے ایک ہی سوال کیا کہ کیا بنا؟ہم بھی صوٖفے پر نڈھال ہو گر پڑے۔توڑی دیرکی خاموشی کے بعد ہم نے ملاقات کا حال بتانا شروع کیا آپ بھی سن لیجئے۔

بقول اُن محترمہ کے ان کا گھر صرف اتنے افراد پر مشتمل ہے جتنے افراد پر مشتمل پورایک قصبہ ہو تا ہے۔اور ان کا مکان کرایہ کا ہے اور اس پر آسیب کے اثرات بھی ہیں۔جس کی وجہ سے ان کے معاشی، مالی اور گھریلو حالات تو سدھرنے کا نام نہیں لے رہے مگراُ ن کا کنبہ وسعت  اختیار کر تے کرتے قصبہ سے بڑھ کر ایک گاؤں کی صورت اختیار کر تا جا رہا ہے۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے مجموعی احوال شاید اتنے زیادہ الم ناک اور دردناک نہ ہوں جتنے اُن خاتون کے گھر کے انفرادی حالات و واقعات ہیں۔میرے گھر والوں نے بیچ میں بات کاٹ کر کہا تمہیں اُن سے مطلب ہے اُن کے گھر والوں سے کیا لینا دینا کیوں کہ تم نے اُن خاتون کو اپنے گھر لانا ہے تم نے ان کے گھر تھوڑی جانا ہے۔

میں نے ایک سرد آہ بھری اور کہا بات اگر یہاں تک ہو تی تو شاید گزاراہ ہو جاتا مگر اُن خاتون کے بقول وہ تین شادیاں کر چکی ہیں اور اُن کے تمام رفیق حیات اُن کی محبت کا بار اپنے ناتواں کاندھوں پر چھ ماہ سے زائد عرصے تک نہ اُٹھا سکے اور خودکشی کر نے کواس بار گراں کو اُٹھا نے پر ترجیح دی۔کیوں کہ بقول خاتون کے کبھی کبھی وہ اپنے شوہر کو جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بناتی رہتی تھیں اور وہ اس بات کو جلد بھول بھی جاتی تھیں کہ اُن سے یہ غلطی کب سرزد ہو ئی تھی۔اور شوہر کی جانب سے معافی نہ دینے کی صورت میں مزید نتائج کے ذمہ مرحوم خود ہو تے تھے جو اُ ن موصوفہ کے بھائیوں کی جانب سے کی جانے والی مزید جسمانی مرمت کی شکل میں ہو تی تھی۔یہ سن کر ہمارے گھر والوں کی بھی وہی کیفیت ہو گئی جو ہماری ہو گئی تھی یعنی کاٹو تو لہو نہیں۔

خیر ہم نے اپنے اُسی دوست کے ذریعے انکار کا پیغام پہنچا دیا کیوں کہ اُ ن کا سامنا کرنے کی ہمت تو تھی نہیں۔اور پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ یو نیورسٹی سے بھی ہم فارغ التحصیل ہوکر برسر روزگار ہو گئے۔مگراب بر سر روزگار ہو نے کے بعد جب کسی شادی دفتر کا رخ کر تے ہیں تو بیٹھتے ہی پوچھا جاتا ہے کہ محترم کس کے رشتے کے سلسلے میں آئے ہیں بیٹی کے یا بیٹے کی؟یہ سن کر تھوڑی ہمت جمع کر کے جو پہلے ہی ختم ہو چکی ہو تی ہے کہتے ہیں نہیں اپنے رشتے کے سلسلے میں پھر پوچھا جاتا ہے کہ کتنا عرصہ ہو گیا ہے علیحدگی کو اور کتنے بچے ہیں؟ہمارے انکار پر ہمیں ایسی نظروں سے دیکھا جا تا ہے گویا ہم غلط بیانی کر رہے ہیں۔اُ س کے بعد کہا جاتا ہے کہ جیسے ہی کوئی مناسب رشتہ آیا ہم آ پ کو آگاہ کر دیں گے مگر وہ آگاہی سے متعلق کال کبھی آئی ہی نہیں۔اب جب ہم ایسے حالات کے درمیاں گھر جائیں تو شدید مایوسی کا شکا ر ہو جاتے ہیں مگر جب ارد گرد پر نظر دوڑاتے ہیں تو اپنے جیسے نہ جانے کتنے زائد المیعاد کنوارے نظر آجاتے ہیں۔

آخر میں میں اس خواہش کا اظہار کروں گا کہ مجھ سمیت تما م کنوارے کسی حسینہ کی زلفوں کے اسیر بن جائیں اور وہ حسینہ پھر ہمیں زندگی بھر کے لیے اپنا اسیر بنا لے۔ایسا نہ ہو کہ کسی حسینہ کے چکر میں کسی اسیر خانہ میں زندگی بھر کی اسیری کاٹنی پڑے۔

 

 

 

3 Comments

  1. Bhut umda kawish Hy,maahre k aik nihayat ghambeer maslay ko nihayat shushta aur bergista andaaz mei paish kerne k liye meri Taraf se tahe Dil se mubarakbaad qubool kerwn aur aise hi muaashrati masail ko tanz o mizah k Saath awam k agay latay rahen, insha'Allah afaqa Hoga :)

    ReplyDelete

Post a Comment

Previous Post Next Post