Khudkushi ke Awamil Janna Chahenge?

خودکشی

نادر عزیز(اسسٹنٹ لائبریرین سینئرسیکشن۔جینیر یشنزاسکول ساؤتھ کیمپس)

Khudkushi ke Awamil Janna Chahenge?


میں بچپن سے ہی مطالعہ کا بے حد شوقین تھا نصابی کتب کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتب کامطالعہ بھی بڑے شوق سے کر تا تھا۔پھر لکھناشروع کیا تو میری تحاریرکو اُمیدوں سے زیادہ پذیرائی ملی اس کے بعدتقاریر کے مختلف مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا اور پھراسکول، کالج اور یونیورسٹی میں کئی تقریری مقابلوں میں ان گنت کامیابیاں اپنے نام کیں۔ماہر نفسیات بننے کی وجہ سے مجھے اپنی ان صلاحیتوں کو مزید جلا بخشنے کا موقع ملا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری شہرت تعلیمی اداروں سے نکل کر شہر کے مختلف دیگر سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں تک پہنچ گئی۔مجھے مختلف عنوانات پر تقاریر اور بحث و مباحثوں کے لیے مدعو کیا جانے لگا۔

بس پھر کیا تھا میں نے اپنی اس خداداد صلاحیت کوصرف اور صرف اپنی ذاتی محنت تصور کر کے لوگوں سے اپنی مرضی کے مطابق معاوضہ وصول کرنا شروع کر دیااور آہستہ آہستہ میری پہچان صرف میری تقاریر رہ گئیں نہ کہ میرا کردارکیوں کہ جن اخلاقی اقدار کی بات میں اپنی تقاریر میں کیا کرتا تھااور لوگوں میں آگہی اور شعوربیدار کرنے کا سبب بنتا تھا بذات خود اُن تمام خوبیوں پر عمل پیرا ہو نے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی اور یہ بھول گیا کہ ہر عروج کو ایک نہ ایک دن زوال ہونا ہے اور جس عروج میں تکبراور انا جیسے منفی عناصرشامل ہو جائیں اس کا زوال نشان ِعبرت بن جاتا ہے۔

میں تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور ہمیشہ بڑا بن کر جتایا نہ کہ بڑا بن کر دکھایا۔ میری نظر میں کامیابی کا معیار صرف اور صرف دولت تھا۔ میرے بقول جس کے پاس دولت ہو شہرت اور عزت اس کے پاس خود چل کر آتی ہیں اور دولت بہت کچھ نہیں سب کچھ ہوتی ہے۔یہاں تک کہ میں نے اپنے بہن بھائیوں اور والدین کو بھی اسی معیار پر پرکھنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ والدین اور بہن بھائیوں سے علیٰحدگی کی صورت میں نکلا۔جب کہ میری تقاریر میں بارہا مشترکہ خاندانی نظام پر زور دیا جاتا رہا۔مگر میرا اپنا یہ حال تھا کہ میں اپنوں کی نظروں سے تو دور تھا دلوں میں بھی جگہ نہ پا سکا۔

شادی بھی والدین کی مرضی کے برخلاف اپنی ہم جماعت سے کی وہ بھی ماہر نفسیات تھیں۔پھر اللہ نے ہمیں ایک بیٹے سے نوازاجس کی تعلیم اور پرورش میں ہم نے کو ئی کسر نہیں چھوڑی اور اُس کی ہر خواہش پوری کرنے کے بعد یہ تصور کرلیا کہ ہم نے بہترین والدین ہو نے کا حق ادا کر دیا۔لیکن جس چیز کی اولاد کو سب سے زیادہ ضرورت ہو تی ہے وہ ہے تربیت جو والدین کے علاوہ کو ئی بھی نہیں کر سکتا اوروہ ہم اپنی خودساختہ مصروفیت کی بناء پر نہ کر سکے اور یہ بھول گئے کہ اولاد کا کرداروالدین کی تربیت کا آئینہ دار ہو تا ہے۔ہم تینوں کی زندگیاں ایسی مصروفیات کے گرد گردش کر رہی تھیں کہ ہم تینوں کبھی ایک ساتھ گھر میں بیٹھ ہی نہ پائے۔اور شاید یہ ہی وجہ تھی میرے بیٹے نے بھی مجھے صرف اپنی خواہشات پو ری کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا تھا نہ کہ باپ۔اور اس میں اس کا قصور بھی نہیں تھا کیوں کہ میں نے اُس کو سب کچھ دیا اگر نہیں دیا تو وہ وقت تھا۔

جب تک میں ایک طالب علم تھا اپنی تقاریر خود لکھا کرتا تھا مگر جب سے میری شناخت ایک     مو ٹیویشنل  اسپیکر کی حیثیت سے ہو نے لگی تھی میں نے ایک سیکریٹری رکھ لیا تھا اوروہ ہی میری ساری تقاریر لکھا کرتا تھا۔اس کو اردو، انگریزی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل تھااور اس کے لکھے ہو ئے الفاظ ادا کر تے وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ الفاظ نہیں جذبات بول رہے ہیں۔ایک دن اس نے مجھے بتایاکہ کسی یتیم خانے میں یتیم بچوں کی ذہن سازی اورمستقبل میں آنے والی مشکلا ت کا سامنا کر نے سے متعلق اُن کی رہنمائی کے حوالے سے تقریر کرنی ہے۔میرا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ اُنہوں نے پیشگی ادائیگی کردی ہے اس کے مثبت جواب پر میں نے اُسے تقریر لکھنے کا کہہ دیا۔اگلے دن اُس نے تقریر میرے سامنے پیش کردی اور میں نے اُس میں سے چیدہ چیدہ باتیں ذہن نشین کرلیں تا کہ میرے جذبات کی صحیح طور پر ترجمانی ہو سکے۔۔

خیر میں وقت مقررہ سے پہلے مذکورہ جگہ پہنچ گیا مگر کچھ انتظامی اُمورمکمل نہ ہو نے کی وجہ سے میری تقریر شروع ہونے میں کچھ تاخیر ہو گئی۔اس بات نے تو گویا مجھے چراغ پا کر دیا اور میں نے تمام اخلاقی حدود دقیود کو روندتے ہوئے یتیم خانے کے سربراہ کوانتہائی بلند اور ہتک آمیز  لہجہ میں اُن کے عملہ اور بچوں کے سامنے جھاڑ پلادی۔تمام بچے اور عملہ میرے اس رویہ پر حیران تھا کہ یہ ہے وہ شخص جسے لوگوں کی تربیت اور اصلاح کے لیے بلایا جاتا ہے؟اسے تو خود تربیت کی ضرورت ہے۔پھر میں نے انتہائی حقارت سے یہاں تک کہہ دیا کہ جو وقت کی قدر نہیں کرتا میں اس کی قدر نہیں کرتااور رہی بات میری پیشگی معاوضہ کی تو وہ ان یتیموں اور مسکینوں کے فنڈ میں جمع کرلیں کیوں کہ آپ کا اور آپ کے اس ادارے کا گزارہ اسی طرح تو ہوتا ہے۔اور یہ کہہ کر وہاں سے واپس آگیا۔

اس واقع کے دو دن بعد ہی مجھے ایک بہت مشہور و معروف سماجی ادارے میں خودکشی پر تقریر کرنی تھی۔ہمیشہ کی طرح اپنے سیکریٹری کی لکھی ہو ئی تقریر پڑھنے بیٹھ گیاتا کہ اُس پر اپنے الفاظ اور جذبات کی ملمع کاری کر سکوں۔مگر پتا نہیں کیوں آج پہلی دفعہ اُس کی تحریر مجھے مطمئن نہیں کر سکی اورلیپ ٹاپ کھول کر خود تقریر لکھنے بیٹھ گیا۔

سب سے پہلے موجودہ حالات و واقعات کا اُن نفسیاتی پہلوؤں سے جائزہ لیا کہ آخر اس اقدام خودکشی کے پیچھے ایسے کو ن سے عناصر کارفرما ہو تے ہیں جو کسی بھی انسان کویہ انتہائی قدم اُٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔پھرقرآن و سنت کی تعلیمات کا مطالعہ کیاکہ ان میں اس فعل کو انجام دینے والے سے متعلق کیا احکامات موجود ہیں۔

مگر حقیقت یہ ہے جب انسان صرف اپنی عقل اور اپنے حالات کے مطابق کسی کے عمل کو پرکھ کر اُس کا فیصلہ کرنا چاہتا ہے تو نتیجہ بھی اپنی  مرضی کے مطابق ہی اخذ کر تا ہے چاہے وہ حقیقت کے بر عکس ہی کیوں نہ ہو۔کیونکہ اس نے کبھی اُن حالات کا سامنا ہی نہیں کیا ہوتاکہ جن سے وہ خودکشی کرنے والا انسان گزر رہا ہو تا ہے اور اپنے آپ کو اس شخص کی جگہ رکھ کر کبھی سوچا ہی نہیں ہو تا کہ اس کو اس بات کا اندازہ ہو سکے   کیوں کہ اس بات کی حقیقت سے کو ئی انکار نہیں کر سکتا کہ کہنے اور سہنے میں بڑا فرق ہو تا ہے۔

اب میں نے چونکہ نامساعد حالات کا سامنا کبھی کیا ہی نہیں تھا تو ظاہر سی بات ہے کہ اس عنوان پر جس قدر جذبات کا اظہار کر سکتا تھا وہ میں نے دل کھول کر کیا اوراسلامی حوالوں کی بھرمار کر کے اپنی بساط کے مطابق ایک زبردست تقریر تحریر کر لی اور مورود الزام صرف اُسی انسان کو ٹہرادیا جو اس قبیح فعل کا مرتکب ہو تا ہے اور اس بات کا کہیں ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا کہ کسی شخص کو اس نہج تک پہنچانے میں معاشرتی نا انصافیوں اور منفی رویوں کا بھی عمل دخل ہو تا ہے اور شاید کسی حد تک اُ ن کا بھی جن سے اس کا خونی رشتہ ہو تا ہے اودیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ نامناسب رویوں کی وجہ بھی اس انتہائی قدم کی طرف پہلا اور آخری قدم ہو تا ہے۔

حسب روایت وقت مقررہ پر جب میں اس جگہ پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں میرا بیٹا پہلے سے موجود تھا۔آج تک اس نے میری کسی تقریب میں شرکت نہیں کی مگر آج نہ جانے کیوں وہ وہاں آیاہوا تھا۔خیر میں نے حسب روایت اپنے خاص اندازمیں اور جذبات کے اُتار چڑھاؤ کے ساتھ اپنی تقریرشروع کر دی۔تقریرکے اختتام پر سوال و جواب کی نشست شروع ہو ئی تو حاضرین محفل میں سے ایک سوال کیا گیا کہ کیا تربیت دینے کی ذمہ داری والدین کی نہیں اور کیا والدین کی جانب سے ایسے رویئے دارلسکون یعنی اولڈ ہاوسز آباد جب کہ اُن کے اپنے گھروں کو بربادکر نے کا سبب تو نہیں بن رہے؟

جب میں نے مجمع پر نظر ڈالی تو وہ سوال کر نے والا کو ئی اور نہیں میرا اپنااکلوتا بیٹا تھا اس سوال نے تو گویا میرے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ماضی کے ان گنت ایسے واقعات میری آنکھوں کے سامنے آگئے جو اس بات پر واضح طور پر دلالت کر رہے تھے کہ میں بھی شاید اُن والدین میں شامل ہوں جنہیں دنیا جہاں کی معلومات اور خبر یں ہو تی ہیں لیکن اپنے ہی بچوں سے بے خبر ہو تے ہیں۔

وہاں موجود لوگ اس بات سے بے خبر تھے کہ میرے پاس اس سوال کے جواب میں ندامت کے سواء کچھ نہیں تھا۔ میں نے بڑی ہمت جمع کر کے جواب کے لیے الفاظ کا انتخاب کر نا شروع کیا مگر آج نہ الفاظ میرا ساتھ دینے کو تیار تھے اور نہ زبان اُ ن الفاظ کی ادائیگی پر آمادہ تھی کیوں کہ آج تک ان دونوں کو حقیقت کے بر عکس استعما ل ہو نے کا عادی بنا دیا تھا اورآج جب حقیقت کا سامنا کر نا پڑا تو دونوں نے ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا۔میں نے انتہائی جذباتی انداز میں بولنا شروع کیا اوراُنہی جذبات کی رو میں وہ سب کچھ بول گیا جو ایک باپ کوکسی صورت زیب نہیں دیتااورقصور وار صرف اور صرف اولاد کو ہی ٹہرادیا جب میرے حوش و ہواس بحال ہوئے تو میں نے دیکھا کہ تمام حاضرین حیران و ششدر میری جانب دیکھ رہے تھے مگر اُن میں میرا بیٹا موجود نہیں تھا مجھے وہاں کے لوگوں نے بتایاکہ آپ کے تلخ اور  ہتک آمیز لہجے کو اس نے اپنی تضحیک سمجھا اور دل بر داشتہ ہو کر وہ نوجوان چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد میں بھی وہاں سے گھر کے لیے روانہ ہو گیا۔ گاڑی میں بیٹھا یہ سوچنے لگا کہ لوگوں کے ساتھ میرے رویوں میں تلخی اور ترشی بڑھتی ہی جا رہی ہے مگر یہ خیال آتے ہی میں اُسے جھٹک دیا کیوں کہ میرے خیال میں یہ خیال ہی منفی تھا۔کیوں کہ میں اپنی انا کے خول میں جو بند تھا اور کسی صورت اُس سے باہر آنے کو تیار نہیں تھا۔مگر کہتے ہیں کہ حالات اور وقت بڑے بڑوں کو سبق سیکھا کر اپنی روش تبدیل کر نے پر مجبور کر دیتا۔

خیر میں جیسے ہی اپنی گلی میں داخل ہو ااپنے گھر کے آگے لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر تھوڑی حیرانی ہوئی میں مگر جیسے ہی اپنے دروازے پر پہنچا تو وہ حیرانی پریشانی میں تبدیل ہو گئی جب میری بیوی نے بتایا کہ میرے اکلوتے بیٹے نے خودکشی کر نے کی کوشش کی ہے اور اس کو ہسپتال لے کر گئے ہیں۔میں اور میری بیگم الٹے قدموں ہسپتال کی جانب بھاگے۔آج زندگی میں پہلی بار میں نے اللہ سے دل کی گہرائیوں سے معافی  اور اپنے بیٹے کی زندگی کی عافیت کا سوال کیا۔مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔استقبالیہ پر پہنچ کر جب اپنے بیٹے کے بارے میں معلوم کیا تو میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی کہ وہ مجھے چھوڑ کر اس دنیا سے جا چکا ہے۔

تھوڑی دیر بعد میں اس کی میت کے آگے ایک مجرم کی حیثیت سے کھڑا تھا جس کی انا، غرور اور تکبر کی سلطنت کو وہ اپنے پاؤں تلے روند کر جا چکا تھا۔میرے اردگرد کھڑے لوگوں کو میری کیفیت محض ایک ڈرامے کے کردار سے ذیادہ کچھ نہیں لگ رہی تھی اور میری بیوی سمیت ہر کو ئی مجھے اپنے بیٹے کا قاتل قرار دے رہا تھا۔کو ئی مجھے سہارا دینے کو تیار نہیں اور کو ئی مجھے سہارا دیتا بھی تو کیوں؟کیوں کہ مجھے تو کبھی کسی کے سہارے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔

دنیا یہ دیکھ کر حیران تھی کہ جو شخص کسی کی میت میں نہ جانے کے لیے ہزار حیلے بہانے تراشتا تھا آج وہ لحدمیں اُتراہو ا ہے۔انہیں کیا خبر تھی کہ لحد میں اُترکر آج مجھے احساس ہو اکہ میں اپنے بیٹے کو نہیں وجود کے حصے کو سپرد خاک کر رہا ہوں اور اس کے ساتھ یہ تیہہ بھی کر لیا کہ اپنی ذات سے منسلک تمام تمام منفی خصلتیں بھی اب میری ذات سے منسوب نہیں رہیں گی۔

مجھے اس بات پر حیرانی بالکل نہیں تھی کہ تعزیت کر نے گھر پر آنے والوں کی تعداد نہ ہو نے کے برابر تھی اور نہ جانے کیوں آج مجھے اُ ن لوگوں میں اخلاص نظر آرہا تھا کہ جن کو میں اب تک اداکاری سے تعبیر کرتا آیا تھا۔ کیوں کہ میں ضرورت سے ذیادہ صرف سماجی رابطوں پرہی اکتفا کر تا اور میل جول کو محض وقت کا زیاں سمجھتا تھا۔

چند دن بعد جب میں اپنے بیٹے کے کمرے میں گیا تو سب کچھ ویسے ہی موجود تھا مگر اگر نہیں تھا تو میرا بیٹا۔میں اس کی تصاویر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ تمام تصویروں میں بھی تنہا تھا اور ہم تینوں کبھی ایک ساتھ کسی تصویر کا بھی حصہ نہ بن سکے؟ اُس وقت مجھے اپنے کہے ہوئے وہ تمام الفاظ کانوں میں گونجنے لگے جو میں نے خودکشی کے عنوان پر یک طرفہ دلائل کی بنیاد پر کہے تھے۔مجھے کیا پتا تھا کہ میں بھی ایک دن اُن والدین کے لیے مثالِ عبرت بن جاؤں گا جو اپنے بچوں کو محض باپ کا نام تو دے دیتے ہیں مگر اُن کی کردار سازی پر کو ئی توجہ نہیں دیتے جس کا خمیاز ہ اس صورت میں بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

میں اُس کی دیوار پر لگی مسکرا تی ہو ئی تصویر کے آگے گھٹنوں کے بل گرگیا اور ندامت سے سر جھکا کر کسی بچے کی طرح بلک بلک کر رو نے لگا۔مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی میرے آنسومیرے گناہوں کا مداواتو ہو سکتے تھے مگر میرے بیٹے کی واپسی کا سبب نہیں۔

 

Post a Comment

Previous Post Next Post