Qata E Talluqi |
نادر عزیز(اسسٹنٹ لائبریرین سینئرسیکشن۔جینیر یشنزاسکول
ساؤتھ کیمپس)
وہ عید الفطر کا دن تھا۔ مجھ سمیت گھر کے تمام
افراد نماز کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔پھر سب تیار ہو کر عید گاہ کی جانب چل
پڑے۔نماز ادا کرنے کے بعد دوست اور اہل محلہ سے عیدمل کے اپنے گھر لوٹ آئے۔گھر میں
پرُ تکلف ناشتہ کا اہتمام تھا۔اس کے بعد ہم اپنے رشتہ داروں کی آمد کا انتظار کرنے
لگے۔ مگر انتظار کی گھڑیاں طویل ہی ہوتی جا رہی تھیں۔گھر کے دیگر لوگ تو شاید اس
بات کو محسوس نہیں کر رہے تھے مگر چونکہ میں حساس طبیعت کا مالک ہوں اور کسی بھی
معاملے کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہوں اسی لیے میرے ذہن کے پردے پر دوسال
قبل والی عید کے دن کی یادیں کسی فلم کی مانند چلنے لگیں کہ جب عید سے کئی روز قبل
ہی میرے والدین کی طرف سے اس بات کی منصوبہ بندی کر لی جاتی تھی کہ عید کے کس دن
اور کس وقت کس رشتے دارکے گھر جانا ہے یا کس رشتے دار نے ہمارے گھر آنا ہے۔اور یہ
ہمارے والدین کی ساری زندگی نصیحت اور وقت آخر یہی وصیت رہی کہ رشتہ داروں سے
تعلقات ختم نہ ہونے پائیں۔مگر والدین کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ہم نے تو ان کی
نصیحت اور وصیت دونوں کو ہی پس پُشت ڈال دیا اور اس خام خیالی میں مبتلا ہوگئے کہ
تعلقات کے قائم رکھنے کا فریضہ صرف رشتہ داروں کا ہے ہمارانہیں۔
میں انہی خیالات کے ساتھ نہ جانے کیوں کمرے میں
موجود آئینے کے آگے کھڑا ہوگیا اور اپنا جائزہ لینے لگا کہ ظاہری وضع قطع سے تو میں
معاشرے میں ایک دین دار انسان کے طور پر جانا جاتا ہوں مگر کیا میں مذہبی اور
معاشرتی اقدارکو الگ الگ درجات میں تقسیم تو نہیں کر رہا۔کیوں کہ جس فطری اور کامل
مذہب یعنی اسلام سے میرا تعلق ہے وہ کسی اکائی کی کردار سازی سے لیکر ایک مکمل معاشرے کی تشکیل
تک ہر شعبہئ زندگی میں میری رہنمائی کرتا ہے اوربلاجواز قطع تعلقی پر سخت وعید یں
سناتا ہے تو پھر میں اس کا کیسا پیرو کار ہوں کہ جو اپنے آپ کو صرف ذاتی اعمال تک
تو محدود رکھتا ہے مگر معاشرتی رویّوں سے بالکل صَرف نظر کیے ہوئے ہے اور اس بات
کا متمنی ہے کہ اس کے تعلقات تمام رشتہ داروں سے قائم رہیں مگر صرف یکطرفہ۔اپنا
محاسبہ کرنے پر مجھے ان عوامل میں ایک چیز جو سب سے زیادہ نمایاں نظر آئی وہ میری
اپنی انا تھی۔
اس خیال نے گویا میرے ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا
اور میرے اندر ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردی کیونکہ میں اپنے دین کے احکامات پر عمل
پیرا نہ ہونے اور اپنے والدین کی نصیحت اور وصیّت کو یکسر نظر انداز کرنے کا خمیازہ
بھگت رہا تھا۔ میں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ ان تین دنوں میں اور دیگر تہواروں میں
ان تمام لوگوں سے روابط استوار کرنے کی کوشش کرونگاکہ جن کے اور میرے درمیان میری
بے توجہی کی وجہ سے فاصلے پیدا ہوگئے ہیں۔
پھر دوبارہ عید آئی مگر یہ عید گزشتہ عیدین سے
مختلف تھی۔اس میں میرے اپنے میرے ساتھ اور میں اپنوں کے ساتھ تھا۔
Zabardast tehreer. Aankhein khulgyin sir meri.
ReplyDeleteMashaAllah zabardast tahreer, sochnay par majboor kardia aapney tou
ReplyDeletePost a Comment